پاکستان بنگلہ دیش میچ دس ملین ڈالر کا جیک پوٹ بن چکا، فائل فوٹو
پاکستان بنگلہ دیش میچ دس ملین ڈالر کا جیک پوٹ بن چکا، فائل فوٹو

چیمپئنز ٹرافی میں آن لائن سٹے کا بازار گرم

عبداللہ بلوچ ;
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں آن لائن سٹے کا بازار گرم ہوچکا ہے۔ اس ایونٹ میں بھارت اور پاکستان سے درجنوں آن لائن بیٹنگ ایپس کے ذریعے بغیر کسی روک ٹوک کے بڑے پیمانے پر کرپٹو کرنسی اور ڈالر کے ذریعے کروڑوں کا دھندا کیا جا رہا ہے۔ یہاں پاکستان کے مقامی جواریوں کی دلچسپی زیادہ دیکھی جارہی ہے اور ایک جواری فی میچ دس ہزار ڈالر تک کمارہا ہے۔

جبکہ بہتی گنگا میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار سائٹس کے وینڈررز کیلئے سہولت کاری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دوسری جانب آج پاکستان بنگلہ دیش کا میچ جواریوں کیلئے جیک پوٹ بن چکا ہے۔ میچ کے نتائج کے حوالے سے دھڑا دھڑ بکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ عرب نیوز اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق چیمپیئنز ٹرافی میں آن لائن بیٹنگ اور دیگر سٹہ پلیٹ فارمز کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاک بھارت کے میچ کے بعد چیمپئنز ٹرافی میں سٹے بازی کے رجحانات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص بھارت اور پاکستان کے جواری بیٹنگ ایپس کے سب سے بڑے شیدائی ہیں۔ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ صرف پاک بھارت میچ میں مختلف بیٹنگ سائٹس کی آمدنی کا حجم دو بلین ڈالر سے بھی زائد ہوسکتا ہے۔ بھارت کے بعد ان بیٹنگ ایپس اور دیگر ایپلی کشنز کے ویوزرز میں پاکستانی جواری دوسرے نمبر پر ہیں۔ جہاں مختلف بیٹنگ ایپس میں رجسٹریشن کرانے والے نئے کسٹمرز کی تعداد ڈھائی کروڑ کے قریب ہے۔ جو چیمپئنز ٹرافی میں کرپٹو کرنسی اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے اپنی رقم دگنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان میں سے ایک جواری نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ چیمپئنز ٹرافی سے دس ہزار ڈالر کما چکا ہے۔ جوا لگانے کیلئے رائے کی تجارتی ایپس نے مزید آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ لاہور کا ایک بکی جو اے بی کا کوڈ نام استعمال کرتا ہے، نے بتایا کہ آن لائن بیٹنگ نے اس کا کام بہت آسان کردیا ہے۔ اسے اب زیادہ موبائل فونز اور کتابچہ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ ہی گرفتاری کا خوف ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر چیمپئنز ٹرافی کے ایک میچ کے دوران تقریباً 17 سو سے 35 سو ڈالر کے برابر کمالیتا ہے۔

پورے سیزن میں اس کی ذاتی کمائی دو سے تین لاکھ ڈالر تک جاسکتی ہے۔ بکی کا کہنا تھا کہ کسی جواری کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے۔ وہ اتنا ہی زیادہ شرط لگاتا ہے۔ بسا اوقات بات اربوں روپے تک چلی جاتی ہے۔ اس کا کام کھلاڑیوں کا ایجنٹس سے رابطہ کرانا ہے۔ اس ریکٹ میں حصے دار قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو ان کا پیسہ پہنچانا بھی ہے۔

بکی نے کہا ”پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیشی ٹیم آج کے مقابلے میں انڈر ڈاگ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں پاکستانی ٹیم کی ناکامی کے ٹپس مل رہی ہیں۔ ان اطلاعات کو ہم درست نہیں سمجھتے۔ لیکن ایسی خبر کلائنٹس کو دینے کے پابند ہیں۔ تاکہ انہیں لالچ دیا جاسکے۔ اس میچ میں فیورٹ ٹیم کا بھاﺅ 1.5 پیسہ ہے۔ اس کا مطلب ایک ڈالر لگانے پر جواری کو 67 ڈالر منافع ملے گا۔ جبکہ انڈر ڈاگ پر ایک ڈالر کی شرط لگانے سے 1.50 ڈالر ملے گا۔ میچ میں کسی بھی چیز پر شرط لگائی جا سکتی ہے۔ کون سی ٹیم ٹاس جیتے گی۔ کس کا بالر سب سے زیادہ وکٹیں لے گا۔ یہاں تک کہ آج ہونے والے میچ کی ویدر رپورٹ یعنی بارش ہوگی یا نہیں پر بھی پیسہ لگایا جاسکتا ہے“۔

اسی طرح ایک دوسرے بک میکر کا کہنا تھا کہ جوئے کے اڈے پولیس کی ناک کے نیچے کام کرتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے کے سی بکی کا کہنا ہے کہ ”پولیس آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیسے بڑے کرکٹ ٹورنامنٹس سے پہلے بک میکرز کے ساتھ سودے بازی اور بھاری رشوت طلب کر رہی ہے۔ کچھ پولیس والے شرطیں بھی لگاتے ہیں۔ میرے جیسے چھوٹے بکیز مستقل بنیادوں پر حفاظتی رقم کے طور پر ہفتہ وار ہزاروں روپے ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں متوقع چھاپے کے حوالے سے پیشگی اطلاع مل جاتی ہے“۔

بلال نامی جواری نے کہا کہ ”چیمپئنز ٹرافی کے پاک بھارت میچ میں تقریباً 5 ہزار 400 ڈالر تک کی شرطیں لگائی گئیں اور کامیابی پر اسے 89 ہزار 538 ڈالر ملے۔ لیکن اگلے میچ میں تقریباً 32 ہزار 233 ڈالر ہار بھی گیا۔ لہذا وہ اب بڑی داﺅ لگانے سے گریز کرتا ہے۔ اب دیگر میچز میں حد سے حد 350 ڈالر فی میچ لگا رہا ہے۔ ایک اور طارق نامی بکی نے بتایا کہ پولیس کی کالی بھیڑیں بھی اس کارروبار میں ملوث ہیں۔ اگر کوئی بکی ادائیگی کرنے میں ناکام رہے تو پولیس انہیں اس وقت تک حراست میں لیے رکھتی ہے جب تک وہ اپنے واجبات ادا نہیں کر دیتا۔

عرب نیوز کے مطابق کراچی پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ جوا بڑی حد تک آن لائن منتقل ہو گیا ہے۔ جو اسے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دائرہ اختیار میں لے آیا ہے۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کے ترجمان عبدالغفور سے متعدد کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔ جبکہ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا محمود علی کھوکھر نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے سوالات پوچھے۔ لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔