فائل فوٹو
فائل فوٹو

ساحر حسن کے گھر سے مہلک قسم کی ’’ویڈ ‘‘برآمد ہوئی

علی جبران :

مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تفتیش کے دوران حادثاتی طور پر بے نقاب ہونے والے منشیات کے نیٹ ورک کی تحقیقات میں روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر کراچی کے پوش علاقوں کلفٹن اور ڈیفنس میں اس نیٹ ورک کے خلاف بظاہر کریک ڈاﺅن جاری ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ”ویڈ“ کا ذکر کیا جارہا ہے۔

پولیس نے معروف اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کے گھر سے آدھا کلو سے زائد امپورٹڈ ”ویڈ“ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جو وہ کوریئر کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک سے منگواتا تھا۔ ساحر حسن کے گھر سے برآمد کی جانے والی ”ویڈ“ ایک خاص قسم ”جیلیٹو“ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ رومن زبان کا لفظ ہے، جس کی پانچ اقسام زیادہ مقبول ہیں۔ چونکہ اس میں نشہ آور کیمیکل کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ”ویڈ“ کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ مہلک اور تیز نشہ چڑھاتی ہے، جس کا دورانیہ بارہ گھنٹے تک ہوتا ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار ملزم اس ”جیلو جیلیٹو ویڈ“ کو دس ہزار روپے فی گرام کے حساب سے فروخت کرتا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ تین گنا زیادہ قیمت پر بیچ کر کروڑوں روپے کمارہا تھا۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ کنفیوژن دور کرتے چلیں کہ مختلف ناموں سے فروخت ہونے والی منشیات میں کیا فرق ہوتا ہے اور یہ کس طرح انسان کی دماغی اور جسمانی صحت کو متاثر کر رہی ہیں۔

ماری جوانا، گانجا، ویڈ، بھنگ، گراس، حیش، حشیش، چرس، گردا اور پوٹ۔ نام الگ الگ، لیکن ان سب کا ماخذ ایک ہی ہے۔ یعنی یہ سب ”کینابس“ نامی ایک پودے سے حاصل کی جاتی ہیں۔ کینا بس (Cannabis) ایک خورد رو جنگلی پودا ہے، جو پاکستان اور بھارت سمیت وسطی ایشیا کے خطے میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ تاہم امریکہ، کینیڈا اور افریقی ممالک میں بھی یہ بڑی تعداد میں موجود ہے۔ مختلف نوعیت کی منشیات کینابس کی دو معروف اقسام اسٹیویا اور انڈیکا سے بنائی جاتی ہیں۔ کینابس کو اردو یا ہندی میں اگرچہ بھنگ کا پودا کہا جاتا ہے۔ تاہم تکنیکی طور پر یہ غلط ہے۔ کیونکہ بھنگ ”کینابس“ کے ایک حصے سے بنائی جانے والی نشہ آور پروڈکٹ ہے۔ ”کینابس“ کے نر اور مادہ دونوں قسم کے پودے ہوتے ہیں اور بیان کردہ زیادہ تر نشہ آور اشیا مادہ کینابس پودے کے مختلف حصوں سے بنتی ہیں۔ جس میں اس پودے کی پتیوں، کونپلوں، پھولوں، جڑوں اور بیج کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا ان سب کے نشے کے دورانیہ، شدت اور کیفیت میں فرق ہوتا ہے۔ اسی لحاظ سے ان کی قیمتوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔

یہ تو واضح ہوگیا کہ ” کینابس پودے“ کے مختلف حصوں سے بننے والی اشیا گانجا، چرس، ویڈ اور بھنگ وغیرہ سے مختلف لیول کا نشہ چڑھتا ہے۔ اس نشے کا سبب اس پودے میں پایا جانے والا ایک سب سے بنیادی اور اہم کیمیکل (THC) Tetrahydrocannabinol (ٹیٹرا ہائیڈرو کینا بینول) ہے۔ اگرچہ ”کینابس“ میں سوا سو کے قریب کیمیکل یا مرکبات ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں دو بنیادی کیمیکل THC اور CBD (کینابیڈیول) ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ نشے کا سبب THC ہوتا ہے۔ جبکہ CBD نشہ آور نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسے بہت سی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے زیادہ تر ڈپریشن، الزائمراور جوڑوں کے درد جیسی دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ تاہم ان ادویات میں کینابس پودے کا خطرناک اور بنیادی کیمیکل THC استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کیمیکل صرف نشے کے لیے بنائی گئی اشیا میں استعمال ہوتا ہے۔

کینابس پودے کے مختلف حصوں سے بنیادی طور پر تین نشہ آور اشیا بھنگ، ویڈ اور چرس بنائی جاتی ہیں۔ یہ تینوں سائیکو ایکٹیو ڈرگ ہیں۔ یعنی یہ انسانی دماغ پر اثرانداز ہوکر نشہ چڑھاتی ہیں۔سب سے پہلے ”ویڈ“ کا ذکر کرتے ہیں جو اس وقت امیر گھرانوں کی بگڑی نوجوان نسل کا سب سے پسندیدہ نشہ ہے کہ مہنگا ہونے کی وجہ سے چرس کی طرح غریبوں کی پہنچ سے دور اور زیادہ تر امپورٹ کیا جاتا ہے۔ ویڈ اور گانجا ایک ہی چیز ہیں۔ گانجا دراصل ہندی سنسکرت کا لفظ ہے۔ ”کینابس“ کی کونپلوں اور پھولوں کو خشک کرکے”گانجا“ یا ”ویڈ“ بنائی جاتی ہے۔

”کینا بس“ کی کونپلوں اور پھولوں میں ہی سب سے زیادہ نشہ آور کیمیکل TCH ہوتا ہے۔ اسی لیے ”ویڈ“، بھنگ اور چرس سے کہیں زیادہ مہنگی اور مضر صحت ہے۔ ”ویڈ“ کے استعمال کا سب سے مقبول طریقہ تمباکو کے بغیر وائبز پیپر یا کسی بھی پتے میں بھر کر پھونکنا یا اسموک کرنا ہے۔ امریکہ، کینیڈا، میکسیکو اور اٹلی میں زیادہ تر ویڈ کا استعمال ”ویپر کپ“ یا شیشے کی طرز کی ایک صراحی کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں پانی بھرا ہوتا ہے۔ تاہم وسطی ایشیا میں سگریٹ کے بجائے بعض لوگ اسے مختلف کھانے پینے کی اشیا میں ڈال کر بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب سے ای سگریٹ اور ویپ کا استعمال شروع ہوا ہے تو ”ویڈ“کا آئل، ویپ اور ای سگریٹ یا شیشہ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، جو بہت زیادہ مضر صحت تصور کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں ویپ یا پوڈ کے ذریعے ویڈ آئل اور حیش آئل کا استعمال بہت زیادہ ہے۔

چرس جسے حش، حشیش اور گردا بھی کہا جاتا ہے، خطے میں سب سے زیادہ کیا جانے والا نشہ ہے۔ کیونکہ ویڈ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستا ہونے کے سبب یہ اب بھی غریبوں کی رسائی میں ہے۔ ”کینابس“ پودے میں سے گوند کی طرح کا ایک چکنا گہرے براو¿ن رنگ کا مادہ نکلتا ہے۔ اسی سے چرس تیار ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر TCH کینابس پودے کی اسی گوند جیسی رطوبت میں پایا جاتا ہے، جس سے چرس بنتی ہے۔ چرس میں ”ٹی سی ایچ“ کی مقدار ایک فیصد سے پندرہ فیصد تک ہوتی ہے۔ جس چرس میں ”ٹی سی ایچ“ کی مقدار دس فیصد سے زائد ہو، اسے مقامی زبان میں ”گردا“ اور انگریزی میں ”اسکنگ“ کہا جاتا ہے۔ ”ٹی سی ایچ“ کی زیادہ مقدار کے سبب ”گردا“ اور ”اسکنگ“ چرس کے مقابلے میں تین گنا زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ سگریٹ یا بیڑی کے تمباکو کے ساتھ مکس کرکے پھونکنا، چرس کے استعمال کا مقبول طریقہ ہے۔ کچھ لوگ اسے سلفی اور خالص شکل میں کوئلے پر رکھ کر بھی پیتے ہیں۔

اسی طرح” کینابس“ کی پتیوں اور جڑوں کو خشک کرکے بھنگ بنائی جاتی ہے، جو عموماً پاکستان اور بھارت میں خشخاش، سونف اور چینی کے ساتھ ایک کچی مٹی کی کونڈی یا کونڈے میں گھوٹ کر شربت کی طرح نوش کی جاتی ہے۔ اسے سنٹرل پنجاب میں” بوٹی“ اور جنوبی پنجاب میں ”ساوی“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے مزاروں پر پڑے رہنے والوں کی ایک تعداد ”بھنگ“ کی دلدادہ ہے۔ اس طبقے نے اسے ”مولائی بوٹی“ کا نام دے رکھا ہے۔ حالانکہ اس سے بھنگ کا کوئی تعلق نہیں۔ ایسے موالیوں کے جھرمٹ کے قریب سے گزرنے والے کی سماعت سے ان کا یہ نعرہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹکرایا ہوگا کہ ” پی پیالہ صبر دا، کوئی نہیں ساتھی قبر دا“۔ بھنگ کو پکوڑوں، پاپڑ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا میں شامل کرکے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارت میں ہولی کے موقع پر کثرت سے بھنگ پی جاتی ہے۔ اڑیسہ، راجستھان سمیت بھارت کی کئی ریاستوں میں قانونی بھنگ شاپس بھی ہیں۔ ان لائسنس یافتہ دکانوں سے ایک فرد یومیہ ایک سو بیس گرام بھنگ خرید سکتا ہے۔ شمالی امریکہ، اسپین، افریقہ اور بعض یوروپی ممالک میں عموماً ”کینابس“ کی خشک پتیوں کو پیسنے کے بعد سگریٹ میں بھر کر بھی پیا جاتا ہے، جسے ماری جوانا یا میری یوانا کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ میکسیکن اسپینش کا لفظ ہے، جو” کینا بس“ کا ہی متبادل نام ہے ۔ ”کینابس پودے“ کی پتیوں میں مہلک نشہ آور کیمیکل THC کی مقدار سب سے کم ہوتی ہے، جن سے بھنگ بنتی ہے۔

”کینا بس“ پودے میں موجود مہلک کیمیکل سے بنی مختلف نشہ آور اشیا کے استعمال سے انسان عارضی سکون، راحت اور خمار محسوس کرتا ہے۔ اسے موسیقی عام حالت سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ کھانے میں وہ زیادہ لذت محسوس کرتا ہے۔ بھوک بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ خود کو زیادہ جوشیلا محسوس کرتا ہے۔ یہ کیف و سرور، راحت، خوشی، اطمینان ایک ”ڈوپامائن“ نامی ہارمون سے ملتا ہے۔ ”ڈوپامائن“ دماغ میں ایک کیمیکل میسنجر ہے، جو موڈ، حرکت، حوصلہ افزائی، راحت، جوشیلے پن اور دیگر خوشی کی کیفیات میں کردار ادا کرتا ہے۔

اسے اکثر ”خوشی کا ہارمون“ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ اس وقت جاری ہوتا ہے جب ہم کسی خوشگوار چیز کا تجربہ کرتے ہیں۔ مثلاً جب آپ اپنی کسی عزیز ہستی سے ملتے ہیں۔ کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں یا اچانک کوئی ایسی شے حاصل کرلیتے ہیں جس کی توقع نہیں ہوتی تو دماغ میں موجود ”ڈوپا مائن“ ہارمون حرکت میں آتا ہے، جو آپ کو خوشی کا احساس دلاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح چرس، ویڈ اور بھنگ پینے سے بھی ڈوپا مائن خارج ہوتا ہے اور وقتی طور پر خوشی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہ خوش گوار احساسات محض اس وقت تک رہتے ہیں جب تک نشہ غالب ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک طرح سے قلیل مدتی خود فریبی ہوتی ہے۔ اس کے طویل مدتی اثرات تباہ کن ہیں۔ نوجوان نسل کی ایک تعداد اسی تباہ کن راستے پر چل رہی ہے۔

”کینا بس“ سے بنی نشہ آور اشیا کا دماغی اور جسمانی صحت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس کے مستقل استعمال سے دماغی اور جسمانی صحت، دونوں متاثر ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو پہلے سے کوئی دماغی بیماری ہے تو یہ نشہ آور اشیا اس کو بڑھا دیتی ہیں۔ اب تک ہونے والی تحقیقات کے مطابق ”کینابس“ سے بنی مختلف نشہ آور اشیا چرس، ویڈ اور بھنگ کے مستقل استعمال سے انسان مختلف نوعیت کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، جن میں یادداشت کا کمزور ہونا، بعض اوقات ہوش و حواس میں نہ رہنا، غیبی آوازیں سنائی دینا، گھبراہٹ اور بلاوجہ کے شکوک و شبہات ہونا شامل ہیں۔ مستقل استعمال سے انسان ڈپریشن اور سائیکوسس میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ جبکہ شیزوفرینیا کا خطرہ دگنا ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر نوعمر افراد پر یہ منشیات زیادہ مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ تمام نشہ آور اشیا خون میں شامل ہونے کے بعد براہ راست دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔ اٹھارہ برس کی عمر تک دماغ ڈویلپ ہو رہا ہوتا ہے۔

ساحر حسن کے گھر سے برآمد ہونے والی امپورٹڈ ویڈ کی قسم ”جیلو جیلیٹو“ ہے۔ یہ جیلیٹو فیملی کے دیگر دو اقسام ”باکیو جیلیٹو“ اور” موشی جیلیٹو“ کو کراس کرکے بنائی جاتی ہے۔ یہ لیمن اور فروٹی جیسے فلیور میں ہوتی ہے۔ اس میں ”کینابس پودے“ کی دونوں اقسام اسٹیویا اور انڈیکا کی پچاس پچاس فیصد مقدار ہوتی ہے۔ جبکہ نشہ آور کیمیکل ”ٹی ایچ سی“ کی مقدار اس میں چھبیس فیصد سے زائد ہوتی ہے، جو بہت زیادہ تصور کی جاتی ہے اور جیلو جیلیٹو کو زیادہ مضر اور نشہ آور بناتی ہے۔ اس کا نشہ بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس کراس پودے کی کاشت کے لیے مخصوص زمین اور درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ امریکہ کی متعدد ریاستوں میں ”کینابس“ کی کاشت اور فروخت قانونی ہے۔ چنانچہ وہاں کی کمپنیاں اسے تیار کرکے خوبصورت پیکنگ میں اسٹوروں پر اور آن لائن فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ”ویڈ“ کے نیٹ ورک سے وابستہ لوگ اسے زیادہ تر امریکہ اور کینیڈا سے بذریعہ کوریئر سروس منگواتے ہیں۔