فائل فوٹو
فائل فوٹو

حماس حملہ، اسرائیل نے مکمل ناکامی کا اعتراف کر لیا

ندیم بلوچ :
قابض اسرائیلی فوج میں 8200 انٹیلی جنس یونٹ کے سابق کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یوسی شریل نے اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ءکو اسرائیلی فوج طوفان الاقصیٰ کو روکنے میں بری طرح ناکامی رہی تھی اور فلسطینیوں کے حملے کے بعد غزہ کے اطراف میں اسرائیلی فوج مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔

اسرائیلی فوج نے حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے پر اپنی پہلی سرکاری رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج ’اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ہیں۔‘

19 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ان ناکامیوں کا ذکر ہے جن کے سبب 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں نے 251 شہریوں کو یرغمال بنایا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج نے غزہ کی طرف سے اسرائیل کو درپیش سکیورٹی خطرات کو ترجیح نہیں دی اور یہ کہ اُن کی پہلی ترجیح ایران اور حزب اللہ تھی۔

اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ کے لیے اُن کی پالیسی ’تضادات پر مبنی تھی اور یہ کہ حماس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس (تنظیم) کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔‘

یوسی شریل نے پالماچیم بیس پر ایک فوجی تقریب کے دوران پالیسی سے ہٹ کر بیانات داغ کر اسرائیل میں ایک نیا ہنگامہ بھرپا کر دیا ہے۔ انہوں نے سات اکتوبر کے حملے کی تحقیقات کے نتائج سامنے رکھے اور اپنے خطاب میں اسرائیلی ملٹری اسٹبلیشمنٹ اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اس دن جو کچھ ہوا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ذمہ داروں کو قوم سے معافی مانگی چاہیے۔

انہوں نے سابق چیف آف اسٹاف ہرزی ہلیوی کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حملے سے ایک برس قبل سے حماس کا عسکری ونگ اسرائیل پر حملے کی دھمکیاں دے رہا تو اس کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ سرحدی علاقوں کی نگرانی کیوں نہیں کی گئی۔ حملے سے پہلے کیوں بارڈر سے سرویلنس کم کی گئی۔ موساد اور شاباک پر اسرائیل سالانہ ہزاروں ملین شیکل خرچ کر رہا ہے۔ ان کی جانب سے دی جانے والے وارننگ کو نظرانداز کرنا فوج اور حکومت کی واضح غفلت ہے۔

جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اہم رہنما مطلوبہ سوالات کا جواب دینے سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ ایک بڑا سوال یہ تھا کہ کیسے ناکامی ہوئی۔ حماس نے ان مقام پر حملہ کیا جہاں نہ تو ٹینک موجود تھے اور نہ ہی ڈرونز۔ شیریل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سات اکتوبر کو جو کچھ ہوا۔ وہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ بلکہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیلی ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہے۔ کیونکہ فوج نے ایک حیرت انگیز جنگ کے امکان کو مدنظر نہیں رکھا اور ایک فوج کے طور پر القسام بریگیڈز سے نہیں نمٹا۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023ءکو صبح سویرے حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کی قیادت میں طوفان الاقصیٰ کے نام سے غزہ کے اطراف میں ایک آپریشن شروع کیا گیا۔ جس میں بارہ سو کے قریب اسرائیلی ہلاک اور ڈھائی سو کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس آپریشن کا اعلان القسام بریگیڈز کے شہید چیف آف اسٹاف محمد ضیف نے کیا تھا اور اسے اسرائیل پر سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا تھا۔

القسام بریگیڈز کی فالکن رجمنٹ کے چھاتہ برداروں کے علاوہ مجاہدین سرحدی باڑ اور سمندر سے یونٹوں کے ذریعے غزہ کے اطراف میں یہودی بستیوں اور کیمپوں پر حملے کرکے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سولہ ماہ جاری رہنے والی جنگ میں پندرہ ہزار سے زائد صہیونی فوجی معذور ہوئے۔ جبکہ ہلاک اسرائیلی فوجیوں کی اصل تعداد اب تک ظاہر نہیں کی گئی۔ تاہم اسرائیل کے بڑے اخبارات نے سات ہزار سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

دوسری جانب حماس کے بانی شیخ احمد یاسین شہید کے ایک پرانے انٹرویو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ جس میں انہوں نے اسرائیل کے خاتمے کے حوالے سے پیش گوئی کی تھی۔ عرب میڈیا کو 1999ءمیں دیئے گئے اپنے انٹرویو میں شیخ احمد یاسین سے جب اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا ”اسرائیل کی بنیاد ظلم پر ہے اور ظلم پر قائم کوئی بھی چیز بلاتاخر ختم ہوجاتی ہے۔ دنیا میں کوئی طاقت ہمیشہ برقرار نہیں رہتی“۔

شیخ احمد یاسین سے سوال کیا گیا کہ اس وقت اسرائیل کس مرحلے پر ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ”اسرائیل آئندہ صدی (21 ویں صدی) کے ربع اول میں ختم ہوجائے گا۔ 2027ءمیں اسرائیل نہیں رہے گا“۔ یہاں شیخ احمد یاسین سے اس مخصوص سال کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں جواب دیا ”کیونکہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ 40 سال میں ایک نسل تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسرائیل کے ابتدائی 40 برسوں میں نکبہ ہوا۔ اگلے 40 برس میں انتفاضہ کا آغاز ہوا۔ جس میں مسلح جھڑپیں ہوئیں۔ اس کے بعد کے 40 برسوں میں ہم اسرائیل کا اختتام دیکھیں گے“۔

واضح رہے کہ 1948ءکی عرب اسرائیل جنگ میں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے جبری بے دخل کیے جانے کو نکبہ کہا جاتا ہے۔ 1987ءمیں غزہ میں اسرائیلی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کو انتفاضہ یا پہلی انتفاضہ کا نام دیا گیا تھا۔ انتفاضہ میں اسرائیلی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہرے بعد ازاں پر تشدد رنگ اختیار کرگئے تھے۔ پہلی انتفاضہ 1993 تک جاری رہی۔