ڈریسنگ روم میں پلنے والے صوبائی تعصب کو نظرانداز کرنا مہنگا پڑا، فائل فوٹو
 ڈریسنگ روم میں پلنے والے صوبائی تعصب کو نظرانداز کرنا مہنگا پڑا، فائل فوٹو

فیس سیونگ کیلیے محسن نقوی کی قربانی پر غور

عبداللہ بلوچ :
حکمران اتحاد نے پاکستانی کرکٹ شائقین اور سرمایہ کارروں کا غم و غصہ کم کرنے اور فیس سیونگ کیلئے پی سی بی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا ہے۔ یہ انکشاف پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک اعلیٰ آفیشل کی جانب سے کیا گیا ہے۔

انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ”امت“ کو بتایا کہ حکومتی اتحاد نے چیمپئنز ٹرافی میں رسوا کن ناکامی پر جاری تنقید سے جان جھڑانے کیلئے محسن نقوی کو پی سی بی کی ذمہ داری سے آزاد کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ تاہم انہیں اس پوسٹ سے ہٹانے کا حتمی مینڈیٹ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاس ہے۔ جو پاکستانی ٹیم کی ناکامی پر انکوائری رپورٹ کے بعد اپنا فیصلہ کرے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ محسن نقوی کرکٹ معاملات کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اور وہ فیصلہ سازی میں زیادہ تر ماتحت افسران کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی ناکامی کے سفر کا آغاز اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب بھارتی بورڈ چیمپئنز ٹرافی کے ہائبرڈ ماڈل میں کامیاب ہوا۔ یہ وہ پہلی ناکامی تھی جس سے حکومتی وزرا یہاں تک کہ پی سی بی کے پیٹرن انچیف وزیر اعظم شہباز شریف بھی خوش نہیں تھے۔ ہائبرڈ ماڈل سے چیمپئنز ٹرافی سے حاصل آمدنی سے پی سی بی ستّر فیصد منافع سے محروم ہوا اور اس ایونٹ میں بھارت ایک مشترکہ ”شیڈو“ میزبان بن کر سامنے آیا۔

ذرائع کے مطابق محسن نقوی نے اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے حکومت اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایونٹ کے تین میزبان اسٹیڈیمز کی تعمیر نو میں غیر معمولی پھرتی دکھائی اور کم وقت میں اسٹیڈیم عالیشان بناکر ایک عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا۔ لیکن انہوں نے اس دوران کھلاڑیوں کے درمیان باہمی چپقلش اور ٹیم انتظامیہ کی ہٹ دھرمی پر بالکل بھی دھیان نہیں دیا۔ محسن نقوی، عاقب جاوید کی قابلیت پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ چیمپئنز ٹرافی میں رسواکن اخراج سے پاکستان کرکٹ گہری کھائی میں گرچکی ہے۔ جسے نکلنے کیلئے اب بڑے فیصلے درکار ہیں۔ اس ناکامی سے پاکستان کے مالیاتی ماڈل کو دھچکا لگا ہے۔ جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں آئی سی سی ٹورنامنٹس میں ٹیم کیلئے اسپانسرز تلاش کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ اس ناکامی کا اثر چیمپئنز ٹرافی کے دیگر ٹیموں کے میچز پر بھی پڑا ہے۔ جہاں تماشائیوں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ جبکہ اس ایونٹ کو اسپانسر کرنے والے بڑے سرمایہ کار بھی ٹیم اور کھلاڑیوں کو اسپانسر کرنے سے قاصر ہوں گے یا پھر معمولی ریٹ پر پی سی بی کو گزارا کرنا پڑے گا۔

اس حوالے سے بورڈ کے کمرشل ونگ کے قریبی ایک معتبر ذریعے نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہونے کے بعد پاکستان کرکٹ کی برانڈ ویلیو کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کے طے شدہ فنانشل امور میں پی سی بی کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ لیکن پاکستانی ٹیم کی ناکامی سے گیٹ منی کی رسیدیں اور دیگر آمدنی ضرور متاثر ہوئی ہے۔

اس ذریعے نے کہا ”ہمیں آئی سی سی کی آمدنی سے اپنا حصہ تو مل جائے گا۔ لیکن مقامی لوگوں کی دلچسپی ختم ہونے اور براڈ کاسٹرز کے بدظن ہونے سے مستقبل میں پاکستان کرکٹ کو ایک برانڈ کے طور پر بیچنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرنے پر لگ بھگ 1.8 بلین روپے خرچ ہوئے۔ لیکن پاکستان ٹیم کی فلاپ پرفارمنس سے یہ اب گھاٹے کا سودا بن چکا ہے۔ کیونکہ شائقین، اسپانسرز، ایڈورٹائزرز اور براڈکاسٹرز کی دلچسپی اور لگائو سب پرفارمنس سے جڑا ہوتا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی سے جو بوسٹ پاکستان کرکٹ کو ملنی تھی۔بدقسمتی وہ موقع گنوایا جا چکا“۔

دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں اور ٹیم انتظامیہ میں صوبائی تعصب بھی دیکھنے کو ملا۔ جس کی وجہ سے ٹیم دو دھڑوں تقسیم تھی۔ کھلاڑیوں کا ایک ٹولہ رضوان کو قیادت ملنے سے خوش نہیں تھا اور انہیں چیمپئنز ٹرافی میں ناکام بنانے کیلئے ٹیم پلاننگ میں تعاون کیلئے تیار نہیں تھا۔ یہاں تک کہ عاقب جاوید اور رضوان کے درمیان بھی چند کھلاڑوں کی سلیکشن پر ٹھن گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خوشدل شاہ اور طیب طاہر، محمد رضوان کے چوائس تھے۔ انہیں ٹیم میں شامل تو کیا گیا۔ لیکن ان دونوں کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر لوئر آرڈر میں رکھا گیا۔ تاکہ وہ پرفارم نہ کرسکیں۔ فہم اشرف کی شمولیت عاقب جاوید نے کروائی۔ لیکن رضوان کا کہنا تھا کہ وہ ساجد خان کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کرکٹ کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پی سی بی کی کارکردگی پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ کرکٹ بورڈ میں پچاس ساٹھ لاکھ روپے تنخواہ پر مینٹور بنا دیئے گئے ہیں۔ لیکن انہیں پتا ہی نہیں کہ ان کا کام کیا ہے۔ ایک چیئرمین کی بات نہیں۔ پچھلے 10 سال سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔