عمران خان :
بھارت افیم سے تیار ہونے والی دوا (ٹرامیڈول) کی اسمگلنگ کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔ بھارت سے یہ دردکش ممنوعہ ادویات فارما سوٹیکل کمپنیاں دھڑا دھڑ بنا کر دنیا بھر میں غیر قانونی طور پر ویکسین کی آڑ میں بھجوا رہی ہیںاور اربوں ڈالر کما رہی ہیں۔
وفاقی حساس ادارے کی مدد سے کسٹمز کارروائی میں کراچی کے علاقے کورنگی کے ایک گودام سے برآمد ہونے والی 10ارب روپے مالیت کی بھارتی ساختہ ممنوعہ ادویات کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ مذکورہ پین کلر دوا (اوپیوآئڈ ٹرامیڈول) کی گولیاں ویکسین کی آڑ میں پاکستان اسمگل کی گئیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب تک بھارت سے ایسی اربوں گولیوں کی درجنوں کھیپیں دنیا بھر کے ممالک میں ویکسین پروگرامز کی آڑ میں اسمگل کی جاچکی ہیں۔ سب سے زیادہ کھیپیں افریقی ممالک بھجوائی گئیں جہاں ان کے بڑے خریدار ”بوکو حرام“ سمیت دیگر درجنوں شدت پسند گروپ ہیں۔
”امت“ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس اسکینڈل میں اب تک تین مقامی فارما سوٹیکل کمپنیوں اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں کو بھی شامل تفتیش کیا جاچکا ہے۔ مذکورہ گولیاں، خاص طور پر کالعدم تنظیموں کے کارندے دردکش دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران زخمی ہونے کی صورت میں درد و تکلیف محسوس نہ کرسکیں۔ افیم سے تیار ہونے والی اس کنٹرولڈ دوا کی ایشیا میں پکڑی جانے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی کھیپ ہے۔ اس کھیپ کے ملنے کے بعد اس عنصر کو بھی تحقیقات میں شامل کرلیا گیا ہے کہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سرگرم کالعدم تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لئے یہ ادویات مل رہی ہیں۔ یہ بھی کہ ان گروپوں کی جانب سے یہ کھیپیں دیگر مارکیٹوں میں فروخت کرکے بھاری فنڈنگ بھی حاصل کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے کلکٹر انفورسمنٹ معین الدین وانی نے ڈپٹی کلکٹرز کسٹمز باسط حسین اور رضا نقوی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہمیں اطلاع ملی بھارت سے اسمگل ہونے والی ممنوعہ ادویات کورنگی کے گودام میں منظم انداز میں ذخیرہ کی گئی ہیں۔ جس پر اسسٹنٹ کلکٹر کسٹمز بسمہ کی قیادت میں ٹیم نے 20 فروری کو چھاپہ مارکر ٹراماڈول نامی دوا کی2 کروڑ 20 لاکھ کے قریب گولیاں اور 17ہزار کیپسول بر آمد کر لئے۔ اسے دردکش دواکے طورپر استعمال کیا جاتا ہے، اس میں افیون کی مقدار موجود ہوتی ہے۔ متعدد ممالک میں یہ دوا کنٹرولڈ میڈیسن ڈکلیئرڈ ہے جبکہ حکومت پاکستان بھی اسے کنٹرولڈ میڈیسن ڈکلیئر کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس کیس میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں اورمختلف زاویوں پر تفتیش جاری ہے۔
کسٹمز حکام کا کہنا ہے یہ جنوبی ایشیا میں اب تک کی سب سے بڑی ضبطی ہو سکتی ہے۔ برآمد شدہ مقدار کو نقل و حمل کے لیے بڑے کنٹینر کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ سال، ممبئی کسٹمز نے 1.1 ارب روپے کی 6.8 ملین گولیاں ضبط کیں۔ واضح رہے افیون پاکستان میں بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوتی اور اس کی بڑی مارکیٹیں مشرق وسطیٰ اور افریقا میں ہیں۔ حکام نے شبہ ظاہر کیا کہ ممکنہ طور پر کچھ ادویات ویکسین امیونائزیشن پروگرام کی آڑ میں اسمگل کی گئی اور اس میں کلیئرنگ ایجنٹس کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔ پکڑی گئی دوائیں کارٹنوں میں پیک کی گئی تھیں جن میں سے اکثر پر لگے نشانات کے باعث اس کا ماخذ بھارت ثابت ہوتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ قبل اٹلی سے حکام کو ٹرامیڈول کی پونے چار کروڑ گولیوں کی کھیپ ملی۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ کھیپ بھارت سے سامان کی آڑ میں بھیجی گئی جسے بعد ازاں لیبیا اسمگل کیا جانا تھا۔اس کیس میں اٹلی کی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ کھیپ انڈیا سے آئی تھی اور اس کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق اس کا پہلا مقصد دہشت گردی کی مالی مدد اور دوسرا عالمی سطح پر کشیدگی اور تنازعات کو بڑھانا ہوسکتا ہے۔
کسٹمز ذرائع کے بقول اب تک حساس ادارے کے ساتھ جو معلومات جمع کی گئیں ہیں ان میں انکشاف ہوا ہے کہ اوپیوآئڈ ٹرامیڈول نامی دوا اکثر خودکش بمباروں کی جیبوں سے ملتی رہی ہیں۔ مزید یہ کہ مغربی افریقہ میں اس کی سمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے منشیات اور جرائم کے ادارے (یو این او ڈی سی) کی رپورٹ کو بھی کیس کا حصہ بنایا گیا ہے جس کے مطابق 2013ءسے مسلسل دنیا کے مختلف ممالک سے پکڑی جانے والی اوپیوآئڈ ٹرامیڈول کی مقدار پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ 2013ءسے پہلے یہ مقدار تقریباً 300 کلو تھی جبکہ اب یہ بڑھ کر سالانہ 4 ٹن ہوگئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نائجیریا میں ایسے ڈبوں سے تیس لاکھ گولیاں پکڑی گئیں۔ جن پر اقوامِ متحدہ کے نشان لگے ہوئے تھے۔ یہ گولیاں ”بوکو حرام“ جیسی شدت پسند تنظیموں میں کافی مقبول سمجھی جاتی ہیں۔ ان گولیاں کو قانونی طور پر درد سے نجات والی ادوایات کے طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ گولیاں حملہ آوروں کو پر سکون رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہی رپورٹوں کے مطابق ”بوکو حرام“ کے لوگ خودکش مشن پر بھیجنے سے پہلے ان گولیوں کو کھجوروں میں رکھ کر بچوں کو کھلاتے ہیں۔ یو این او ڈی سی کی جس رپورٹ کو تحقیقات کا حصہ بنایا گیا ہے اس کے مطابق ان دوا کی اسمگلنگ کی صورتحال قابو سے باہر ہے اور اس سے عالمی سطح پر سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان مشتبہ افراد کی جیبوں سے مسلسل اوپیوآئڈ ٹرامیڈول مل رہی ہے جنہیں دہشتگردی کے شبے میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ یو این او ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ گولیاں جرائم پیشہ گروہ عام طور پر ایشیا سے بذریعہ خلیجی ممالک سمگل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال افریقہ کے ا±ن علاقوں میں ایک بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے جسے ساحل کہا جاتا ہے خاص طور پر شمالی مالی اور نائجر میں جہاں نوجوانوں کی شکل میں اسمگلروں کو ایک بڑی منڈی مل رہی ہے۔ مالی میں ایک خاتوں نے بتایا کہ وہ اکثر ایسے بچوں کو دیکھتی ہیں، جنھیں بھوک سے بچنے کے لیے یہ گولیاں دی جاتی ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos