علمائے کرام نے امداد کیلیے تحقیق کی ہدایت کردی ، فائل فوٹو
علمائے کرام نے امداد کیلیے تحقیق کی ہدایت کردی ، فائل فوٹو

رمضان آتے ہی کراچی میں نوسر باز سرگرم

اقبال اعوان :

رمضان شروع ہوتے ہی کراچی میں جعلی چندہ مانگنے والے سرگرم ہوگئے۔ مسافر گاڑیوں، چوراہوں، گلی کوچوں میں فطرہ زکواۃ خیرات کے علاوہ مساجد، یتیموں کی امداد، بیوائوں کی مدد، مدارس کے بچوں کے نام پر راشن اور کپڑے جمع کیے جا رہے ہیں۔ بعض نے جعلی این جی اوز اور کئی دوسرے شہروں کی مساجد اور مدارس کے فرضی ناموں سے رسید بکس بنوا رکھی ہیں۔

گداگروں کے بعد ان جعلی چندہ والوں نے شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ علمائے کرام اس حوالے سے بار بار تاکید کرچکے ہیں کہ مطمئن ہو کر اور تحقیق کرکے زکواۃ فطرہ یا راشن دیں۔ واضح رہے کہ شہر میں رمضان کے آغاز کے ساتھ مقامی اور غیر مقامی افراد مسافر گاڑیوں میں چندے کی رسید بکس لے کر چڑھتے ہیں اور صبح سے شام تک رسید بک دکھا کر چندہ طلب کرتے ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں میں مساجد، مدارس کے لئے جہاں چندہ طلب کیا جاتا ہے۔ وہیں کراچی کی مضافاتی بستیوں میں بعض ملتے جلتے ناموں سے مدارس اور مساجد کے علاوہ بے سہارا، لاوارث بچوں، بزرگوں کے سینٹرز کے نام پر چندہ مانگا جاتا ہے۔

ہر سال رمضان بھر میں یہ جعلی چندے والا کام ہوتا ہے۔ تاہم اس کی روک تھام کے اقدامات نہیں کئے جاتے۔ اگر پولیس موبائل والوں کو ان کے خلاف بتایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ان کے حوالے سے کوئی ہدایات جاری نہیں ہوئی ہیں۔ اگر ان کے خلاف گداگروں کی طرح کوئی پکڑنے کے احکامات ملیں تو کارروائی کریں۔ شہر میں مسافر بسوں، ویگنوں، مزدا، کوچوں میں صبح سے شام تک ان کی بھرمار ہوتی ہے۔ میگا فون اور رسید بک اٹھائے لوگ چندہ طلب کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق رمضان کے دوران چندہ مافیا ان نوسر بازورں کو کام پر رکھتی ہے۔ گداگروں کی طرح ان کو بھی بااثر افراد اور پولیس کی سرپرستی ہوتی ہے۔ اگر کوئی مساجد یا مدارس کے حوالے سے پکڑ کر قریبی تھانے لے کر جاتا ہے، تو ان کو سپورٹ کی جاتی ہے۔ سال بھر چندہ مانگنے والے مساجد یا مدارس کے نام کی لوہے کی ٹین کی چھوٹی پیٹی اٹھا کر چندہ مانگتے ہیں اور رمضان میں رسید بک لے کر چندہ مانگتے ہیں۔ اس طرح انہیں 1500 روپے تک دیہاڑی مل جاتی ہے۔ رمضان کے دوران شہر میں چندہ مافیا والے اپنے مختلف مساجد و مدارس کے نام پر چندہ کی پیٹی لگا دیتے ہیں۔ پبلک مقامات، بس اڈوں، چوراہوں، سڑک کنارے، تجارتی مراکز، بازاروں کے اندر اور باہر لگے چندے کے بکس میں شہری رقم ڈالتے ہیں جو بعد میں راتوں کو نکال لی جاتی ہے۔ ان میں جعلی ڈبوں کا سلسلہ زیادہ ہے۔

دوسری جانب علاقوں بالخصوص کچی آبادیوں میں صبح سویرے مختلف این جی اوز کے نام پر جن کی تصدیق نہیں ہوتی، ان کی ایمبولینسوں پر سوزوکی ہائی روف یا کیری پر مساجد، مدارس، این جی اوز کے نام پر چندہ کرنے والے آجاتے ہیں جو نقد رقم، راشن، کپڑے اکٹھے کرتے ہیں۔ ان کے حوالے سے پتا چلا ہے کہ مقامی تھانے میں سیٹنگ کرکے آتے ہیں اگر کوئی جعلی ہونے پر پکڑ کر تھانے میں لے جائے تو پولیس بعد میں ان کو چھوڑ دیتی ہے۔ ایک سوزوکی پر چندہ، راشن،کپڑے لینے لینے والے ابوبکر کا کہنا ہے کہ ابراہیم حیدری کے ساحالی علاقے میں ان کا مدرسہ ہے اور مزید تصدیق دینے سے انکار کردیا۔ ان سے پوچھا کہ مدرسے میں بچے پڑھتے ہیں تو زنانہ، مردانہ کپڑے استعمال شدہ جمع کر رہے ہو، تو اس کا کہنا ہے کہ ان کپڑوں کو فروخت کرکے رقم حاصل ہوتی ہے۔