عمران خان :
پاکستان میں آن لائن الیکٹرانکس مصنوعات کی آڑ میں حوالہ ہنڈی اور کھیپ سے اسمگلنگ کا بڑا نیٹ ورک دبئی سے چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے دبئی سے اسمگل کی جانے والی اسمارٹ واچ، ایئر بڈز اور دیگر سامان کی کھیپیں لاہور اور اسلام آباد کے ایئر پورٹوں پر کسٹمز افسران کی ملی بھگت سے اتاری جاتی ہیں، جہاں سے ان کھیپوں کو بذریعہ سڑک کراچی کے گودام تک ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے نے مرکزی ملزم کے حوالے سے اہم معلومات حاصل کرکے ملزم کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی کارروائی شروع کردی ہے۔ گروپ کا سرغنہ احمد نامی شخص ہے جو (موبو پرو) کے نام سے پاکستان میں ہول سیل پر اسمارٹ واچز، ایئر بڈز اور فٹنس کے سامان کی کمپنی چلا رہا ہے۔
موصول اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے ایف آئی اے کراچی اون کو خفیہ اطلاع موصول ہوئی کہ کراچی کے علاقے صدر میں حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ کا ایک بڑا نیٹ ورک چلایا جا رہا ہے۔ جہاں سے الیکٹرانکس مارکیٹ کے مقامی دکانداروں کو ہول سیل پر آن لائن سامان فروخت کیا جاتا ہے جس کے ادائیگیوں کے لئے بینکنگ کے قانونی چینل کے بجائے حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک استعمال ہو رہا ہے۔ اس اطلاع پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کراچی میں ایک انکوائری رجسٹرڈ کرکے چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی گئی۔ مذکورہ ٹیم کی جانب سے صدر کے علاقے عبداللہ ہارون روڈ پر النجیبی الیکٹرانکس بازار کے گودام پر کارروائی کی گئی۔
مذکورہ کارروائی میں گودام سے کروڑوں روپے مالیت کے نان کسٹم پیڈ اسمارٹ واچ، ائیر بڈز، ہیڈ فونز چارجرز برآمد کئے گئے۔ جبکہ 3 کروڑ پاکستانی کرنسی بھی برآمد کی گئی۔ کارروائی کے دوران ملنے والے سامان کو قانونی طور پر ملک میں لائے جانے کے حوالے سے کسی قسم کی دستاویزات پیش نہیں کی جاسکیں۔ چھاپے کے دوران موقع پر موجود 3 ملزمان کو بھی حراست میں لیا گیا جن کی شناخت محمد عثمان ولد محمد رفیق ، محمد آصف ولد محمد عبدل اور سید عمران ولد سید محمد سلیم کے ناموں سے ہوئی۔
اس کے ساتھ ہی آفس میں موجود عملے کے موبائل فونز اور ملنے والے رجسٹروں سے حوالہ ہنڈی اور کرنسی کی غیر قانونی ترسیل کے شواہد بھی ملے۔ موقع سے برآمد ہونے والی کرنسی اور سامان کے ساتھ گرفتار ملزمان کو ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی سرکل میں منتقل کیا گیا جہاں پر مزید کاررروائی کے لئے اس انکوائری پرفارن ایکسچینج کرنسی ایکٹ ( فیرا) اور اسمگلنگ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد جب تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو حراست میں لئے گئے ملزمان نے بتایا کہ وہ موبو پرو نامی کمپنی کے ملازم ہیں جبکہ ان میں ایک منیجر شامل ہے جس کے کمپنی کے مالک احمد سے قریبی روابط ہیں اور وہ اس کے جرم میں شریک ہوسکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کمپنی کا مالک احمد نامی شخص ہے جو عرصہ دراز سے الیکٹرانکس کے سامان کی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کا کام کرتا ہے۔ اس کا کراچی اور دبئی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔
مذکورہ دونوں شہروں کے کئی الیکٹرانکس ڈیلرز اس کے پارٹنرز ہیں۔ تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ میسرز موبو پرو کھیپ کے ذریعے امپورٹڈ الیکٹرونک گیجٹس آن لائن سیل کرنے میں ملوث اور ان کی رقم حوالہ ہنڈی اور ’’چمک‘‘ (دبئی کی کرنسی) کے ذریعے ادائیگی کرتے تھے۔
نیٹ ورک کے سرغنہ احمد کے حوالے سے مزید معلوم ہوا کہ اس نے صدر الیکٹرانکس مارکیٹ سے کام شروع کرنے کے بعد کھیپوں کا کام شروع کیا اور پہلے خود سامان کیری کرکے لاتا اور لے جاتا رہا۔ تاہم بعد ازاں اس نے دبئی میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرکے اپنے کاروبار کا مرکز دبئی کو ہی بنا لیا جہاں اب ڈیرہ دبئی کی المرار نامی بلڈنگ میں دکان نمبر 007 کو اس نے اپنے کاروبار کا ہیڈ آفس بنا رکھا ہے۔ یہیں سے احمد نے کراچی سمیت پورے پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کو پھیلا رکھا ہے جہاں متعدد ایکسچینج کمپنیوں میں اس کے ’’چمک‘‘ کے اکائونٹس ہیں۔
ایف آئی اے نے اس کیس میں اپنی تحقیقات کا دائعہ وسیع کرنے کے لئے ملزمان سے ملنے والے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کو فارنسک جانچ کے لئے بھجوا دیا ہے۔ جبکہ ملزمان اور کمپنی کے ناموں پر موجود بینک اکائونٹس کا ڈیٹا بھی حاصل کر لیا گیا ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس نیٹ ورک کے ساتھ کتنے مقامی ڈیلروں اور ریٹیل سیلر کی ٹرانزیکشنز سامنے آتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی ملزم احمد کو حراست میں لینے کے لئے اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے اور اس کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو بلیک لسٹ کرنے ( بلاک ) کرنے کے لئے قانونی کارروائی کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول اسی طرح پر کراچی میں دیگر آن لائن الیکٹرانکس کا امپورٹڈ سامان فروخت کرنے والی کمپنیوں کی چھان بین بھی شروع کردی گئی ہے۔ کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہی حوالہ ہنڈی اور کھیپوں کے ذریعے سامان اسمگل کرنے والے بھی اپنی وارداتوں کے لئے نئے زمانے کے مطابق ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرنے لگے ہیں۔ اب سامان کی فروخت اور بکنگ کے لئے خود آنے جانے کے بجائے ویب سائٹس اور فیس بک پیجز کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔
جبکہ واٹس ایپ گروپ بنا کر بھی دبئی سے کھیپ کے ذریعے آنے والے سامان کی ایڈوانس بکنگ کروالی جاتی ہے۔ جس کے لئے دبئی میں ہی حوالہ ہنڈی کے ذریعے چمک یعنی درہم پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ اس کام کے لئے پاکستان سے دبئی آنے اور جانے والے کمیشن ایجنٹوں کو بطور کیری استعمال کیا جاتا ہے جنہیں درہم اور ڈالرز کے پیکٹ تھما کر دبئی کے ریٹرن ٹکٹ فراہم کردیے جاتے ہیں۔ یہ کیری ہر وزٹ میں 10ہزار ڈالر سے زائد کا زر مبادلہ چھپا کر دبئی میں سامان کے اسمگلروں تک ادائیگی کی مد میں پہنچا دیتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک کے تحت اگر یومیہ 20 کیری بھی رقم لے کر دبئی جائیں تو صرف کراچی ایئر پورٹ سے 2 لاکھ ڈالر کی یومیہ اسمگلنگ ہوسکتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos