امت رپورٹ :
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کرنے پر پی ٹی آئی ہمدردوں کا رونا دھونا شروع ہوگیا ہے۔ لاکھوں ڈالر کی لابنگ کے عوض ٹرمپ سے عمران خان کے لیے صرف ایک جملے کی بھیک مانگنے والی پی ٹی آئی کی حالت اس وقت یہ ہے ’’دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘۔
ٹرمپ کی بے اعتنائی پر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے پیروکاروں نے دھیمے سروں میں المیہ کورس گانا شروع کر دیا ہے۔ اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اونچے سروں میں ماتمی گیت گایا جائے گا۔ ایبے گیٹ (افغانستان) پر دہشت گرد ی کے اہم ملزم شریف اللہ کی گرفتاری پر صرف ٹرمپ انتظامیہ ہی پاکستان کی شکر گزار نہیں۔ دیگر امریکی ایوان نمائندگان بھی اس کے قائل ہیں۔
اس حوالے سے ایک اہم امریکی نمائندے جو ولسن نے اپنی ایک ایکس پوسٹ میں پاکستانی رول کی ستائش کرکے گویا پی ٹی آئی کے پیروکار وں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔ جو ولسن نے کہا ’’شکر گزار ہوں کہ ایبے گیٹ کے دہشت گرد کو انصاف کا سامنا کرنے کے لیے امریکی حراست میں لایا گیا‘‘۔ اس پوسٹ پر پی ٹی آئی کے پیروکاروں نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کر دیئے۔ کسی نے ’’غیر آئینی حکومت سے دھوکا نہ کھانے کی منت کی‘‘۔ اور کوئی منمنایا کہ ’’عمران کی رہائی کے لیے بھی آواز اٹھا کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں‘‘۔
پی ٹی آئی کے حامی ایک مایوس سوشل میڈیا صارف نے اس رسوائی پر شہباز گل اور یوٹیوبر عمران ریاض کو رگڑ دیا اور کہا کہ ان دونوں نے اپنے ولاگ میں مسلسل پی ٹی آئی کے پیروکاروں کو ٹرمپ کی بتی کے پیچھے لگا رکھا تھا کہ کسی بھی وقت عمران کی رہائی کے لیے کال آنے والی ہے۔
پی ٹی آئی کے پیروکار وں کو بے وقوف بنا کر اپنے ولاگز کے ذریعے ان دونوں نے دبا کر ڈالر کمائے۔ اس صارف نے جو ولسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شہباز گل سے پوچھا ’’ان پر پیسے لگانے کا کس نے کہا تھا؟ اور عمران ریاض کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’اس کو بھی فضول میں پیمینٹ کی‘‘۔ ساتھ ہی عمران ریاض کے قریباً سوا دو مہینے پرانی پوسٹ لگائی، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’پچیس دسمبر سے پہلے امریکہ سے ایک کال اسلام آباد آنے والی ہے‘‘۔ کال تو امریکہ سے آگئی۔ لیکن وہ عمران خان کی رہائی کے لیے نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کی ہے۔
قصہ مختصر ٹرمپ کی جانب سے حکومت پاکستان کی تعریف پر پی ٹی آئی کی مایوسی عروج پر ہے۔ رہی سہی کسر پی ٹی آئی کے ایک پسندیدہ تجزیہ کار اور ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے پوری کردی۔ انہوں نے کہا ’’ان لوگوں کے لیے جو امید کرتے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنائے گی، پابندیاں لگائے گی۔ عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ شریف اللہ کی گرفتاری پر پاک، امریکا تعاون کی خبریں ایک یاد دہانی ہے کہ امریکا کو اب بھی یقین ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کچھ محاذوں پر مددگار ثابت ہوسکتی ہے‘‘۔
مائیکل کوگل مین کی بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے خود کش دھماکے سے منسلک ایک اہم دہشت گرد کو پکڑنے میں جہاں پاکستانی حکومت کی مدد پر شکریہ ادا کیا۔ وہیں اپنی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی کرتے ہوئے پاکستان کو ایف سکسٹین لڑاکا طیاروں کے بیڑے کو برقرار رکھنے کے لیے تین سو ستانوے ملین ڈالر کی منظوری بھی دی ہے۔ یہ فیصلہ ٹرمپ کے بیس جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد غیر ملکی امداد پر پابندی کے آرڈر کے باوجود کیا گیا ہے۔ بیرون ممالک کو فنڈنگ پر پابندی ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لگائی تھی۔
پی ٹی آئی کی اس ساری کہانی کا ’’درد ناک‘‘ پہلو یہ ہے کہ امریکہ میں موجود اس کے پیروکاروں نے بے بہا ڈالر خرچ کرکے کئی لابنگ فرمیں ہائر کیں۔ ایسوں کو بھی نواز دیا، جن کی ٹرمپ انتظامیہ میں کوئی حیثیت نہیں۔ خوشامد کی انتہا کردی گئی۔ لیکن اس کا نتیجہ اب تک ڈھاک کے تین پات نکل رہا ہے۔ اگر یہ اتنی خدمت اپنے والدین کی کرتے تو دین اور دنیا دونوں کماتے، اس کے برعکس بتوں کی سیوا کرتے رہے، مقصد صرف ایک تھا کہ اس سرمایہ کاری کے عوض امت مسلمہ کے نام نہاد لیڈر کو رہا کرا لیں۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی پی ٹی آئی کی اس بے چارگی پر یہ پوسٹ کی ہے ’’سُنا ہے وائٹ ہاؤس سے اسحاق ڈار کو کال آئی ہے۔ لیکن دہشت گرد پکڑنے میں مدد پر شکریہ ادا کرنے کے لیے۔ وہ جنہوں نے رہائی والی کال کرانے کی کوشش میں لاکھوں ڈالر چندہ دیا، اب ریفنڈ مانگ لیں۔ اور یوٹیوبر حضرات، ٹرمپ کے ہاتھوں بک گئے، وغیرہ کا نیا بیانیہ بنانے کی تیاری پکڑیں‘‘۔