ٹرمپ بگرام ایئر بیس واپس لینے کیلیے بے تاب ہیں ، فائل فوٹو
 ٹرمپ بگرام ایئر بیس واپس لینے کیلیے بے تاب ہیں ، فائل فوٹو

داعش کمانڈر شریف اللہ کو 70 ممالک ڈھونڈ رہے تھے

امت رپورٹ :

کابل ایئر پورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ داعش کمانڈر شریف اللہ کو 70 ممالک کی پولیس اور انٹیلی جنس ڈھونڈ رہی تھی۔ اسامہ بن لادن کے بعد یہ سب سے بڑی ’’مین ہنٹ‘‘ (Man Hunt ) تھی۔ یہ کہنا ہے، معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا۔’’ امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ کابل ایئر پورٹ پر سوا تین برس پہلے کئے جانے والے حملے کے بعد سے تاریخ کی دوسری بڑی ’’مین ہنٹ‘‘ شروع کی گئی، جس کا مقصد شریف اللہ عرف جعفر کو پکڑنا تھا ۔ ’’مین ہنٹ‘‘ کا مطلب کسی خطرناک مفرور کی بڑے پیمانے پر تلاش ہے جس میں عوام کی مدد، پولیس، فوج، انٹیلی جنس اور جدید ٹیکنالوجی سمیت ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ چھبیس اگست دو ہزار اکیس کوامریکی انخلا کے موقع پر کابل ائیرپورٹ حملے میں تیرہ امریکی فوجیوں سمیت ایک سو ستّر افغان باشندے ہلاک ہوگئے تھے۔ آصف ہارون کے مطابق تب سے داعش کمانڈر شریف اللہ نا صرف امریکی خفیہ ایجنسیوں کا اہم ہدف تھا، بلکہ روس، برطانیہ، لیبیا، ایران ، ترکی، فرانس، جرمنی اور کینیڈا سمیت ستّر ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس ’’مین ہنٹ‘‘ میں شامل تھیں۔ کیونکہ داعش اس وقت دنیا بھر کے لیے ایک سنگین خطرے کے طور پر ابھری ہے۔

شریف اللہ، داعش کے جس نیٹ ورک سے منسلک تھا، اس کی شاخیں درجنوں ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ستّر ممالک شریف اللہ کو پکڑنے سے قاصر رہے اور آخرکار یہ کارنامہ پاکستان نے انجام دیا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا لوہا منوایا ،جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مستقبل میں اس جنگ میں پاکستان ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہوگا۔

آصف ہارون کے بقول پاکستان نے شریف اللہ کو بلوچستان میں پاک افغان بارڈر کے ملحقہ علاقے سے گرفتار کرکے مکمل انٹیروگیشن کے بعد امریکہ کے حوالے کیا۔ ایبے گیٹ خودکش حملے اور ماسکو حملے سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات کے اعترافات بھی وہ پاکستانی تفتیش کاروں کے سامنے کرچکا تھا، جسے امریکی انٹیلی جنس نے ری چیک کرکے درست قرار دیا۔ اور اب امریکی ایف بی آئی کی ٹیم اور ورجینیا کی عدالت کے روبرو بھی شریف اللہ نے یہ سارے اعترافات کرلئے ہیں۔ پاکستان میں انٹیروگیشن کے دوران داعش کمانڈر نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے بھی انکشافات کئے تھے، جس کی مزید تحقیقات اب امریکی حکام کریں گے۔

آصف ہارون کہتے ہیں، چونکہ داعش کی افغانستان میں مضبوط جڑیں ہیں ۔ اس لئے مستقبل میں امریکہ اور پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں اور کمانڈروں کو ڈرون کے ذریعے ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں بیت اللہ محسود سے لے کر فضل اللہ تک، ٹی ٹی پی کی صف اول کی قیادت کو ڈرون کے ذریعے ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے لئے داعش کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی بھی ایک بڑا خطرہ ہے، لہذا امریکہ سے ڈرون کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرکے پاکستان بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتا ہے۔ جس طرح حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک تنظیم نے بنوں میں حملہ کیا ، اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ٹی ٹی پی کا داعش سے بھی گٹھ جوڑ ہے، اگرچہ داعش کو افغان طالبان کا بڑا حریف تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن حافظ گل بہادر جیسے ٹی ٹی پی سے منسلک کئی گروپ داعش خراسان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔

ایک سوال پر آصف ہارون کا کہنا تھا کہ بنوں حملے کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا، کیوں کہ اس حملے کے تانے بانے بھی افغانستان کی سرزمین سے ملتے ہیں ، لہذا افغانستان میں حافظ گل بہادر کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی خارج ازامکان نہیں۔ لیکن یہ مناسب وقت اور پوری تیاری کے ساتھ کی جائے گی تاکہ سو فیصد اہداف حاصل کئے جاسکیں۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ محض انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کافی نہیں، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے ہوں گے۔ اس کے لئے امریکہ سے انیٹلی جنس تعاون بھی لیا جاسکتا ہے اور امریکہ اس کے لئے تیار ہے۔

صدر ٹرمپ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن پر جلدبازی میں کئے جانے والے انخلا اور ساڑھے سات ارب ڈالر کے جدید ہتھیار افغانستان چھوڑ جانے پر تو سیخ پا ہیں ہی ، وہ بگرام ائیر بیس حوالے کرنے پر بھی برہم ہیں۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اسٹریٹجک اہمیت کا بگرام ایئربیس امریکہ کے پاس رہنا چاہیے تھا، تاکہ افغانستان میں داعش اور القاعدہ کو امریکہ کاؤنٹر کرسکتا۔

آصف ہارون کے مطابق اب ٹرمپ ہر صورت بگرام ایئر بیس واپس لیناچاہتے ہیں اور اس سلسلے میں روس ان کی مدد کرے گا۔ یوکرین معاملے میں ٹرمپ ایسے ہی پیوٹن سے تعاون نہیں کررہے، ظاہر ہے کہ اس کے بدلے میں وہ خود بھی تو کچھ لیں گے۔ ٹرمپ کا دوسرا بڑا ہدف افغانستان سے اپنا اربوں ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ واپس لینا ہے، جو وہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیموں کو فروخت کررہے ہیں۔

اس فوجی سازو سامان کے بارے میں افغان آرمی چیف نے کہا ہے کہ لے کر دکھا سکتے ہو تو لے لو۔ ہوسکتا ہے امریکہ پاکستان سے کہہ دے کہ وہ ان سے جتنے ہتھیار لے سکتا ہے لے کہ یہ ہتھیار زیادہ تر پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔