اقبال اعوان :
کراچی میں گزشتہ 60 سال سے چلنے والے ماشکی کے روزگار کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے ختم نہیں ہونے دیا۔ ماشکی 30 لیٹرز سے زائد پانی کی مشک میں لے کر اولڈ سٹی ایریا کی کئی منزلہ اونچی عمارتوں پر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بمشکل ہزار بارہ سو روپے کی دیہاڑی ملتی ہے اور اب لائن کے میٹھے پانی کی جگہ بورنگ نے لے لی ہے۔ روزے میں یہ کام ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اولڈ سٹی ایریا میں اب بھی 100 سے زائد لوگ یہ کام کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر سے ٹاور تک برنس روڈ سے گارڈن تک اولڈ سٹی ایریا میں 60 سال سے زائد عرصے سے چلنے والا روزگار اب بھی جاری ہے۔ گائے، بھینس کے کٹوں کی کھال میں پانی بھر کر گھر گھر دینے کا کام جاری ہے۔ ماشکی طفیل کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور گزشتہ 30 سال سے صدر میں کام کررہا ہے۔ اس کے والد بھی یہ کام کرتے تھے۔ اب بعض جگہوں پر تیسری نسل کام کررہی ہے۔ آگے جاکر چند سال بعد یہ کام ختم ہو جائے گا کہ نئی نسل اس کام کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور بھی مشقت سے گھبراتی ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ 15/16 سال قبل جگہ جگہ گلیوں میں پینے کے پانی کے نلکے لگے ہوئے تھے اور یہ مشک بھر کر گھروں پر ڈال کر آتے تھے۔ پھر لوگوں نے پینے کے پانی کی لائیں ڈلوائیں اور موٹریں لگائیں کہ گھر گھر یعنی فلیٹ میں پانی آئے گا۔ پانی کی کمی کے علاوہ بجلی کا نظام بری طرح متاثر ہے۔ اب میٹھے پانی کے نلکے سوکھ گئے۔ ہینڈ پمپ لگا کر یا بورنگ کے نلکوں کی فٹنگ کرا کے کام چلایا جارہا ہے۔ مشک میں زیادہ استعمال ہونے والا بورنگ کا پانی اور میٹھا پانی آر او پلانٹ سے ٹینکی میں لے کر آتے ہیں۔ اس طرح 30 لیٹر والی مشک 100 روپے تک ڈالتے ہیں۔
ماشکی رفیق کا کہنا تھا کہ ماشکیوں نے علاقے بانٹے ہوئے ہیں اگر کوئی اس فیلڈ میں آنا چاہے تو رابطہ کرتا ہے تو اس کو فلیٹوں کی لوکیشن بتا دیتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ تم پانی ڈال دو۔ اس کام میں ملتان، فیصل آباد، صادق آباد، رحیم یار خان کے لوگ زیادہ شامل ہیں۔ اب روزانہ دیہاڑی نہیں لیتے۔ فلیٹ والے ہفتہ وار یا ماہانہ رقم ان کو دیتے ہیں اس طرح وہ اپنے اخراجات چلاتے ہیں۔ اکثریت ڈیروں پر یا کچی آبادیوں میں سستا کرائے کا مکان لے کر رہتے ہیں۔ بعض فلاحی اداروں کے دستر خوانوں پر کھانے کھاتے ہیں اور بعض ڈیروں پر مل کر کھانا بناتے ہیں اور ہر ماہ بمشکل پندرہ بیس ہزار روپے جو بچائے جاتے ہیں وہ گائوں بھجوا دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے خاندان پل رہے ہیں۔
ماشکی رمضان کا کہنا ہے کہ گرمیوں اور رمضان کے دوران زیادہ آزمائش ہوتی ہے اور بیماری ہو یا دیگر مسئلہ ہو کہ گائوں جانا ہو۔ ساتھی ہر صورت پانی پورا کرے گا کہ اس طرح کام کرنے سے روزگار چلتا ہے۔ عیدوں کے دنوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ البتہ صبح سویرے جلدی آکر کام نمٹا دیتے ہیں۔ ماشکی حیدر علی کا کہنا تھا کہ مشک جس کو مشکیزہ بھی بولتے ہیں۔ یہ آج کل نوانی پڑتی ہے کہ بقر عید پر تو بڑے جانور کی کھال ملتی ہے۔ یہ بھینس کالونی لانڈھی سے لے کر آتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے بڑے کٹے کی کھال لے کر مشک بنواتے ہیں۔ اس طرح دو تین ہزار میں موچی تیار کر کے دے دیتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ دنیا چاند پر چلی گئی۔ شہر کے اندر جو صورت حال بنیادی سہولتوں کی ہے کہ بجلی، پانی، گیس کے بحران نے شہر میں پرانا وقت دکھانا شروع کر دیا ہے۔ ماشکی اب ٹھیلے پر لوہے کی ٹینکی رکھ کر چلتے ہیں اور ٹھیلہ کھڑا کر کے پانی کی ٹینکی سے مشک بھرتے ہیں اور کندھے پر رکھ کر اوپر فلیٹوں پر جاتے ہیں۔ بعض اوقات زیادہ پانی کی ڈیمانڈ آجاتی ہے تب روزگار بڑھ جاتا ہے۔