ہر سال گداگروں کی آڑ میں سیکڑوں جیب کترے بھی آتے ہیں ، فائل فوٹو
 ہر سال گداگروں کی آڑ میں سیکڑوں جیب کترے بھی آتے ہیں ، فائل فوٹو

کراچی میں جیب کتروں کی عید شروع

اقبال اعوان :
کراچی میں رمضان کے دوران جیب تراشی کی وارداتوں میں انتہائی اضافہ ہوگیا۔ یومیہ 300 سے زائد وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ہر سال دوسرے شہروں سے گداگروں کے ساتھ جیب تراش بھی ’’سیزن‘‘ کمانے کراچی آتے ہیں۔ پولیس تاحال کسی جیب تراش کو گرفتار نہیں کر سکی۔

اس کی اہم وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بیشتر شہری واردات کے بعد تھانے جاکر رپورٹ نہیں کراتے۔ اکثر وارداتیں مسافر گاڑیوں میں ہوتی ہیں اور زیادہ تر مرد، خواتین کے موبائل فون نکالے جاتے ہیں۔ بعض شہری گاڑیوں میں پولیس کو 15 پر کال کرتے ہیں۔ تاہم کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔ واردات کا شکار بس اسٹاپ پر موجود پولیس موبائل والوں کو اطلاع دے اور جیب تراشوں کے حوالے سے بتائے تو کہا جاتا ہے کہ تھانے جاکر اطلاع دو۔ وہ کارروائی کریں گے اور ملزمان کو پکڑیں گے۔ شاہراہ فیصل، ماڑی پور روڈ، شاہراہ پاکستان، ایم اے جناح روڈ، کورنگی روڈ پر زیادہ وارداتیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے کہ شہر میں چوری، ڈکیتی کی وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور شہری ڈکیتوں کو پکڑ کر خود سزا دینے لگے ہیں۔

پولیس کے حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ پروٹوکول اور وی آئی پی کی اور اپنے افسران کی حفاظت تک پولیس محدود ہو گئی ہے۔ شہر میں ہر رمضان کے دوران ملک بھر سے یہاں گداگر آتے ہیں۔ وہاں ان کی آڑ میں ڈاکو، ڈکیت، چور، جیب تراش سمیت دیگر جرائم پیشہ بھی آتے ہیں اور ہر سال جرائم کی شرح مزید بڑھ جاتی ہے۔ شہر میں پولیس کے لیے جیب تراشی کی واردات بہت ہلکی واردات سمجھی جاتی ہے۔ اس کی رپورٹ کرانے والوں کو کہا جاتا ہے کہ شناختی کارڈ یا دیگر کاغذات کی گمشدگی کا روزنامچہ کرا دو کہ آگے کاغذی کارروائی کرا سکیں۔ نہ کوئی جیب تراش پکڑا گیا نہ برآمدگی ہوتی ہے۔

شہر میں مچھر کالونی، ڈاکس، ابراہیم حیدری، شاہ لطیف ٹائون، لیاری سے تعلق رکھنے والے درجن سے زائد گروپس سال بھر وارداتیں کرتے ہیں جبکہ رمضان میں لاہور اور دیگر پنجاب کے شہروں اور حیدرآباد سے جیب تراش گروپ آجاتے ہیں۔ رمضان میں صبح اور شام کے اوقات چھٹی کے تقریباً ایک ہوتے ہیں۔ مسافر بسوں، کوچوں میں رش کے دوران مردوں کے ساتھ ساتھ جاب کرنے والی خواتین بھی ان کا شکار بنتی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ 6 سے 8 جیب تراش اکٹھے گاڑیوں میں چڑھتے ہیں اور دروازوں پر اکٹھے ہو کر آنے جانے والوں کو دبا دبا کر موبائل فون، رقم نکال لیتے ہیں۔

بس کنڈیکٹر، ڈرائیور، اس حوالے سے خود بے بس نظر آتے ہیں اور جان بوجھ کر خاموش نظر آتے ہیں۔ آج کل جیب تراشنے والی خواتین بھی سرگرم ہیں۔ مسافر گاڑیوں میں موبائل فون پرس سے نکال لیتی ہیں۔ اس جرم کو بہت کمزور واردات سمجھا جاتا تھا کہ موبائل فون کے بعد اس کی حیثیت بڑھ گئی۔ آج کل پہلی سے پانچ تاریخ تک تنخواہ والے شکار ہوتے ہیں اور موبائل فون ہر کسی کے پاس ہوتا ہے۔ دوسرے عشرے کے بعد تجارتی مراکز، عید بازاروں میں وارداتیں بڑھ جائیں گی۔ ابھی مسافر بسوں، سرکاری اسپتال کے قریب میڈیکل اسٹور، بس اڈوں پر وارداتیں ہورہی ہیں۔

ایک گروپ ویگن بس میں چڑھتا ہے تو چند اسٹاپ تک درجن سے زائد وارداتیں کرکے اتر جاتا ہے اور لوگ ادھر ادھر پریشان ہو کر واردات کا شکار ہو کر چلے جاتے ہیں۔ شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جناح اسپتال کے قریب میڈیکل اسٹور پر صبح کے اوقات میں دوائی خریدنے والوں کا رش ہوتا ہے اور افراتفری میں جیب تراش کام دکھا جاتے ہیں اور متاثرین روتے دھوتے چلے جاتے ہیں۔ شہر میں چوری، ڈکیتی کے بعد رمضان میں جیب تراشی کا بازار گرم ہے۔ اور ان جیب تراشوں کے خلاف کون کارروائی کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔