عمران خان :
پاکستان سے مویشیوں اور گوشت کی پڑوسی ممالک کو اسمگلنگ نہ رک سکی، جس کے باعث ملک میں گوشت کے نرخ مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ جبکہ عید قرباں پر مویشیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ مویشیوں کی اسمگلنگ سے اب پیٹرول و ڈیزل مافیا بھی جڑ چکی ہے جبکہ یہ منی لانڈرنگ کا ایک بڑا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔ دوسر جانب عرب ممالک میں پاکستان میں موجود فرنٹ مینوں نے روابط استعمال کرکے مشکوک سفارتی این او سیز پر لاکھوں مویشی ایکسپورٹ کرکے اب تک اربوں روپے کما لئے ہیں۔ کئی اہم نیٹ ورک پکڑے جانے کے باجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان سے مویشیوں کی اسمگلنگ اور گوشت کی غیر قانونی ایکسپورٹ کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔ اس پوری صورتحال کے انسداد کے تمام ادارے بشمول منسٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی، صوبائی محکمہ لائیو اسٹاک، ویٹرنری ڈپارٹمنٹس، پولیس ،کسٹمز اور بین الصوبائی راستوں پر پر موجود دیگر سرکاری ادارے جن کی چیک پوسٹیں فعال ترین ہیں ذمے دار ہیں۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ مہینوں میں بلوچستان کے گوادر اور تربت کیچ کی طرف جانے والے راستوں پر سینکڑوں مویشیوں پر مشتمل متعدد کھیپوں کو کوسٹ گارڈز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اور سرکاری اداروں کی ٹیموں کی جانب سے پکڑا گیا، جنہیں بعد ازاں ایران کی جانب سے اسمگل کیا جانا تھا۔
اس کے علاوہ ان علاقوں کے اطراف کے مقامات پر کئی ٹھکانوں سے بھی موشیوں کی کھیپیں ملیں ہیں، جنہیں ملک کے دیگر حصوں سے ایران کی جانب اسمگل کرنے کے لئے لایا گیا تھا۔ مذکورہ صورتحال غمازی کرتی ہے کہ پاکستان سے مویشیوں کی اسمگلنگ کا نیٹ ورک اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی کلالچ میں بیوپاری بھی اپنے جانور ملک میں فروخت کرنے کے بجائے اچھے ریٹوں پر اسمگلروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ عرب ممالک کے نام پر بھی مویشی اور گوشت کی مشکوک کھیپوں کے متواتر جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
ذرائع کے بقول یہ سلسلہ گزشتہ دھائی میںتیز ہوا جس کے بعد ملک میں گوشت کی قیمتیں تیزی سے بڑھنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان سے فصلیں کٹتے ہی سبز چارہ عرب ممالک کو بھجوانے والی مافیا بھی پنپنے لگی جسے مخصوص قسم کی خدمات کے عوض عرب ممالک کی شخصیات کی جانب سے پاکستان سے ٹھیک ٹھاک سبز چارہ سیزن میں جمع کرکے عرب ممالک میں بھجوانے کی اجازتیں دی جانے لگیں۔ اس پوری صورتحال نے مجموعی طور پر پاکستان کے شہریوں کی خوراک پر سنگین اثرات مرتب کئے ہیں۔ تاہم نیشنل فوڈ سکیورٹی سمیت متعلقہ وزارتیں اور ادارے خواب کرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں گوشت کی قیمتیں مختلف ہیں۔ کراچی میں بغیر ہڈی والے گائے کے گوشت کی سرکاری قیمت 950 روپے فی کلو اور ہڈی والے گائے کے گوشت کی قیمت 750 روپے فی کلو مقرر ہے۔ جبکہ بغیر ہڈی کے بچھیا کے گوشت کی قیمت 1150 روپے فی کلو اور ہڈی والے گوشت کی قیمت 1000 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح بکرے کے گوشت کی قیمت 2 ہزار روپے فی کلو مقرر کی گئی۔ تاہم مختلف مقامات پر ہر قسم کا گوشت سرکاری قیمتوں سے 50 روپے سے لے کر 200 روپے کلو زائد میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
اس میں ہول سیل سپلائرز اور ریٹیل فروخت کرنے والے قصابوں کی من مانی گراں فروشی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ جبکہ اب صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کی اکثریت کو بڑی عید کے علاوہ گوشت عام دنوں میں کھانے کی سکت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ جبکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔قتدرتی چارے کی بہتات کی وجہ سے یہاں مویشیوں کی پیداوار دیگر اطراف کے ممالک کی نسبت قدرتی طور پر کہیں زیادہ ہے۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ سے دو دھائیوں میں جنم لینے والی مویشیوں اور گوشت کی اسمگلنگ اب ایک منظم مافیا نیٹ ورک کو روپ دھار چکی ہے۔ جس کو کئی سرکاری اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی سہولت کاری حاصل ہوچکی ہے۔
ذرائع کے بقول 2010ء کی دھائی کے بعد جب ان معاملات کی باز گشت ماتحت عدالتوں سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک پہنچی تو سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد کسٹم حکام کو بھی اس کے انسداد کے لئے فعال کیا گیا۔ بعد ازاں صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بلوچستا ن حکومت کو باقاعدہ ایک خط لکھا گیا۔ جس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اس سے مدد طلب کی گئی۔ اور کہا گیا کہ مویشیوں کی اسمگلنگ روکنے کے لئے بلوچستان حکومت بھی تعاون کرے۔
جبکہ اضلاع کے درمیان مویشیوں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنرزکو اس سلسلے میں پابند کیا جائے کہ وہ مویشیوں کی نقل و حرکت کے لئے اجازت نامے جاری نہ کریں۔ کیونکہ مویشیوں کے اسمگلرز ان اجازت ناموں کی آڑ میں مویشیوں کوتربت اور دیگر سرحدی علاقوں میں لا کر یہاں سے افغانستان اسمگل کردیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مویشیوں کے اسمگلروں کی جانب سے اجازت ناموں پر جتنے جانوروں کی نقل و حرکت کی اجازت لی جاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ تعداد میں جانوروں کو لے جایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ اجازت نامے ڈپٹی کمشنر آفس لسبیلہ کی جانب سے جاری کئے گئے جاتے رہے، جن کی تعداد ایک وقت میں صرف چند مہینوں میں 10 ہزار اجازت ناموں تک بھی پہنچتی رہی۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق ابھی بھی ضلع ملیر کے علاقے گڈاپ ٹائون کی حدود میں اندرون ملک لائے گئے جانور وں کا غیر شرعی طور پر ذبیحہ کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد گوشت کو انتہائی خفیہ طریقے سے بیرون ملک اسمگل کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول اس ضمن میں اگر کے ایم سی کے ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کے خلاف انکوائری کرائی جائے تو ہولناک حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس عمل میں ضلعی پولیس اور ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کے متعدد افسران اپنے بیٹر کے ذریعے حصہ وصول کرتے ہیں۔
قصابوں کے مطابق بیٹر کے ذریعے لوگوں کے گوشت کو پکڑ کر فی گاڑی 50 ہزار روپے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ایک گاڑی میں 2 سے ڈھائی لاکھ کا گوشت ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھتہ ضلعی پولیس کا بیٹر اور ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کا بیٹر اٹھاتا ہے۔ بھتہ نہ دینے کی صورت میں جب لوگ اپنے جانور کا گوشت بیچتے ہیں تو پولیس فی جانور ایک ہزار روپے کا تقاضہ کرتی ہے۔ جس میں بعض دیگر سرکاری افسران بھی ملوث بتائے جاتے ہیں۔ یہ نیٹ ورک گزشتہ کئی برسوں سے ملکی خزانہ کو سالانہ اربوں کا نقصان پہنچا رہا ہے۔