نمائندہ امت :
پشاور سمیت صوبہ خیبرپختون میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے سبب ضلع کرم کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید طول پکڑ گیا ہے۔ گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصے سے راستوں کی بندش اور اشیائے خورونوش کی قلت کے باعث عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ جبکہ پٹرول و ڈیزل کی قلت نے بھی لوگوں کو پیدل آمد و رفت پر مجبور کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پارا چنار میں پٹرول و ڈیزل 800 روپے فی لیٹر فروخت ہونے کی شکایات پر انتظامیہ نے کارروائیوں کے دوران ہزاروں لیٹر پٹرول و ڈیزل ضبط کرلیا۔ ذرائع کے بقول راستوں کی بندش کی وجہ سے اسمگلر پٹرول اور ڈیزل 800 روپے فی لیٹر تک فروخت کر رہے تھے۔ تاہم نتظامیہ نے حالات سے فائدہ اٹھاکر غیر قانونی منافع کمانے والوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ تاہم علاقے سے ملنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مختلف اشیائے خورونوش کی قلت سمیت قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ رمضان میں کھانے پینے کی اشیا سمیت مشروبات کی مانگ بڑھ جاتی ہے، جس کا فائدہ منافع خور اٹھا رہے ہیں اور حکومت و انتظامیہ کی جانب سے علاقے میں بھیجی جانے والی اشیا خرید کر آگے زیادہ نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ جس پر علاقہ کے عوام نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ علاقے کو بھیجی جانے والی اشیا تاجروں پر فروخت کرنے کے بجائے عام عوام پر فروخت کی جائیں۔
دوسری جانب 506 گاڑیوں پر مشتمل سامان کا بڑا قافلہ پارا چنار پہنچ گیا ہے۔ جس میں پٹرولیم مصنوعات بھی شامل ہیں۔ جبکہ علاقے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع کرم میں امن معاہدے کے تحت بنکرز کی مسماری اور ان سے منسلک خندقوں کو ختم کرنے کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 483 بنکرز مسمار کیے جا چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امن معاہدے کے تحت ہتھیاروں کو ریاست کے پاس جمع کروانے کا مرحلہ وار سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم امن کیلئے علاقے میں منعقد کیے جانے والے جرگوں کا سلسلہ تھم جانے کی اطلاعات ہیں۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت جو کرم کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ اب صوبے میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے بعد اس کی توجہ منقسم نظر آرہی ہے۔ تاہم عیدالفطر کے بعد دوبارہ سے مزید جرگوں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے صوبائی حکومت کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم تمام مسائل و مشکلات حل کرنے کیلئے صوبائی حکومت پر عزم ہے اور ضلع کرم کا مسئلہ بھی اس میں سرفہرست ہے۔ اس مسئلے کو بھی افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔ دوسری طرف علاقے کے عوام کی جانب سے حکومت سے مطالبات کیے جارہے ہیں کہ فوری طور پربند راستوں کو محفوظ بنانے سمیت آمدورفت کیلئے کھولا جائے۔ کیونکہ لوگوں کے پاس جو جمع پونجی تھی سب ختم ہو گئی ہے۔
اگر راستے مزید ایک سے دو مہینے تک بند رہے تو گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ جائے گی۔ کیونکہ بیرون ممالک جانے والے افراد کے ویزے بھی ختم ہونے کے قریب ہیں اور بیشتر افراد ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ ان کے ویزوں کی مقررہ تاریخ ختم ہو نے کی وجہ سے ان کی ملازمت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اسی طرح طلبہ کا قیمتی تعلیمی سال بھی ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔