اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کے خود ساختہ فرنٹ مین کی سرپرستی حاصلہے، فائل فوٹو
 اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کے خود ساختہ فرنٹ مین کی سرپرستی حاصلہے، فائل فوٹو

رمضان سے قبل ہی گودام اسمگلنگ کے مال سے بھر گئے تھے

عمران خان :

اسمگلنگ کی روک تھام کے دعوے دھرے رہ گئے۔ رمضان المبارک سے پہلے ہی کراچی کی مارکیٹوں کے گودام اسمگلنگ کے سامان سے بھر دیئے گئے تھے۔ کسٹمز انفورسمنٹ کی اے ایس او ٹیموں کی اپنی انفارمیشن پر کارروائیوں کا دائرہ کار محدود ہو کر رہ گیا۔ اطلاعات کے مطابق عید سے قبل اربوں روپے مالیت کے مضر صحت بھارتی گٹکا، ناقص چھالیہ، اسمگل شدہ چھالیہ اور غیر ملکی سگریٹ کی نئی کھیپوں سے کراچی یوسف گوٹھ ٹرمنل کو بھردیا گیا۔ اطراف میں موجود 5 بڑے اسمگلروں کے گودام بھر جانے کے بعد شہر بھر میں خود کو کسٹم پریونٹو کی اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (اے ایس او)کے فرنٹ مین ظاہر کرنے والے افراد کی سرپرستی میں سپلائی شروع کردی گئی ہے۔ یہ فرنٹ مین خود کو کسٹم پریونٹو اے ایس او گھاس بندر اور ہیڈ کوارٹر کے لئے معاملات طے کرنے کا ذمے دار بتاتے ہیں۔

یہی نیٹ ورک ایرانی تیل کے اسمگلروں کی گاڑیوں کو جعلی کاغذات پر کلئیر کروارہا ہے اور اسمگلروں کو جعلی دستاویزات فراہم کرنے میں بھی ملوث ہے۔ اس کے عوض یہ فرنٹ مین اسمگلروں سے ہفتہ اور ماہانہ بنیادوں پر کسٹمزانفورسمنٹ کلکٹوریٹ پریونٹو کراچی کے نام پر بھاری بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول بھارتی گٹکا، چھالیہ، اسمگل شدہ چھالیہ اور غیر ملکی سگریٹ اور ایرانی تیل سمیت دیگر اشیا کے 5 بڑے اسمگلروں حاجی صادق، لالی، دولت لہری اور بالی سمیت دیگر اسمگلرز کے روزانہ کی بنیاد پر 10 ویلر والے 5، 5 ٹرک روزانہ کی بنیاد پر دو راستوں سے لائے جارہے ہیں۔

اسمگلنگ کے سامان سے لدے ان ٹرکوں کو شمیم اور مسعود کی نگرانی میں یوسف گوٹھ کوئٹہ بس ٹرمنل پر اطراف میں موجود اسمگلروں کے وئیر ہائوسز میں ان لوڈ کیا جارہا ہے۔ جہاں سے لی مارکیٹ اور جوڑیا بازار سمیت شہر بھر کی مارکیٹوں میں سپلائی کی جارہی ہے۔ زرائع کے بقول آدھے ٹرک بلوچستان کے علاقے خضدار سے بھوتانی اسمگلروں کے علاقے ’’دورجی‘‘ سے منگھوپیر سے لائے جارہے ہیں، جہاں کوسٹ گارڈ کی چوکیاں راستے سے کٹ جاتی ہیں۔ جبکہ آدھے ٹرک آرسی ڈی کی سڑک سے لائے جاتے ہیں۔

کسٹم ڈپارٹمنٹ کے اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ کراچی پریونٹو کلکٹریٹ کی جانب سے ہر ایک دو ہفتے میں اسمگلروں کے خلاف چھوٹی نمائشی کارروایاں کرکے کچھ سامان ضبط کرلیا جاتا ہے۔ تاکہ اپنی کارکردگی ظاہر کی جاسکے۔ لیکن اصل صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ ایک برس قبل تک وفاقی حکومت اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹر ز سے جاری ہونے والی سخت ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اسمگلروں کے نیٹ ورک کے خلاف بلوچستان سے سندھ اور پنجاب سے خیبر پختونخواہ تک جو کارروائیاں کی گئیں، اب بتدریج ان پر ہاتھ ہلکا کردیا گیا۔ کئی گروپ جو وقتی طور پر اپنا کام کم کرکے انڈر گرائونڈ ہوچکے تھے، وہ اب واپس پوری طرح سے ایکٹو ہوچکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ ،چمن اور خصوصی طور پر نوشکی بیلٹ جوکہ ان دنوں اسمگلنگ کے حوالے سے سرگرم ترین علاقہ ہے، یہاں سے اسمگلنگ کا سامان بالائی سندھ اور زیریں سندھ کے علاقوں کراچی کے ڈمپنگ پوائنٹس تک پہنچانے کے لئے اسمگلروں کا سب سے بڑ انیٹ ورک شیر آغا، حاجی صادق، حاجی بسم اللہ، حاجی بالی، حاجی عبدالرحمان، حاجی نواز، نبی بخش، طوفان خان، احمد شاہ اور سیلاب خان کے کارندے چلا رہے ہیں جس کے تحت منگھوپیر دور جی کے علاقے سمیت حب سے کراچی آنے والی آرسی ڈی شارع کے درمیان اور اطراف کئی درجن کچے راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

روزانہ انٹر سٹی مسافر بسوں اور ٹرکوں میں کروڑوں روپے کا سامان کراچی منتقل کرکے بلدیہ اور اطراف کے گوداموں میں ڈمپ کرنے کے بعد شہزور ٹرکوں اور سوزکیوں میں کھاردار، میٹھا در، جوڑیا بازار اور بولٹن مارکیٹ سمیت شہر کی مرکزی مارکیٹوں کے گوداموں میں سپلائی کردیا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے یہ سامان طارق روڈ، یونیورسٹی روڈ، کورنگی روڈ ڈیفنس، لیاقت آباد وغیرہ کی مارکیٹوں میں سپلائی ہوتا ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے ملک کے بالائی علاقوں سے ترسیل ہونے والے سب سے زیادہ سامان کی منزل کراچی ہوتی ہے۔

ذرائع کے بقول کراچی میں انسداد اسمگلنگ کے ذمے دار کسٹم پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کے اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کے شعبہ کی ٹیمیں اس اسمگل شدہ سامان کے خلاف اس وقت کارروائیاں کر رہی ہیں۔ جب ان کو انفارمیشن مل جاتی ہے کہ اسمگلروں کے کارندے اپنا سامان مقامی تاجروں تک پہنچا کر ان سے اپنی رقم وصول کرچکے ہیں، اس کے بعد ان ٹیموں میں شامل بعض اہلکار ان تاجروں سے جاکر جوڑ توڑ کر کے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں اور نہ دینے والے تاجروں پر چھاپہ مار کر سامان ضبط کرلیتے ہیں۔ جبکہ انہی تاجروں کو اسمگلنگ کا سامان سپلائی کرنے والے اسمگلروں سے اعلیٰ افسران کے نام پر پہلے ہی حصہ وصول کرلیا جاتا ہے۔

اسی سسٹم کے تحت اب اسمگلروں کے ذریعے مقامی تاجروں کی جانب سے سب سے بھاری سرمایہ کاری اس وقت ایران سے آنے والے کوکنگ آئل، کھانے پینے کے سامان اور غیر ملکی اسمگل شدہ ٹائروں اور کپڑے میں کی جا رہی ہے۔ اس وقت بلدیہ ،مواچھ گوٹھ ،لیاری ،گارڈن ،بولٹن مارکیٹ ،لی مارکیٹ ،ملیر ،شرافی گوٹھ ،شاہ لطیف ٹائون ،کھوکھرا پار ،میمن گوٹھ سمیت کئی علاقوں میں ایسے ڈمپنگ پوائنٹس ہیں جہاں ایرانی کوکنگ آئل اور کنفکشنری کا ساما ن ڈمپ کرکے سپلائی کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ شہریوں کو مقامی تیار کردہ تیل سے تھوڑا سستا مل جاتا ہے۔ اس نیٹ ورک میں کئی نئے افراد بھاری رشوت دے کر کسٹم اور پولیس کی کالی بھیڑوں کی سرپرستی حاصل کرکے شامل ہوگئے ہیں جس میں بلیک منی بھی بھاری مقدار میں کھپائی جا رہی ہے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے اس کو سفید کیا جا رہا ہے۔ جبکہ قومی خزانے کو بدترین نقصان پہنچ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔