کینال سے بھارتی آبی جارحیت سے بچنے میں مدد ملے گی ، فائل فوٹو
 کینال سے بھارتی آبی جارحیت سے بچنے میں مدد ملے گی ، فائل فوٹو

حکمران سیاسی اتحاد کو خطرہ لاحق

نواز طاہر :
دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر کے منصوبے کے ساتھ ساتھ پنجاب کی حدود کے اندر ہی دریائے سلتج پر بھی محظوظ شہید نہر کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر حکومتی سطح پر بھی اختلافِ رائے سامنے آگیا ہے جس سے دو بڑی اتحادی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں سیاسی اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ تاہم اب نہروں کے معاملے میں حکمتِ عملی میں تبدیلی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ میں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ حکومتی جماعت پیپلز پارٹی بھی ان مظاہرین میں شامل ہے جو دریائے سندھ پر نہروں کیخلاف مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور صدر مملکت آصف علی زرداری بھی اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں ان نہروں کے حق میں ایک قرارداد بھی لائی جارہی ہے جو تاحال بوجوہ معرض التوا میں رکھی گئی ہے۔ جبکہ اسی دوران پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اقتدار میں شراکت کے فارمولے اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے جاری اختلافات کا معاملہ وقتی طور پر نسبتاً ٹھنڈا کیا جاچکا ہے، لیکن بنیادی ایشوز برقرار ہیں۔ حکومتی حلقوں کے بعد ریاستی حلقوں نے بھی اس حکمتِ عملی میں اپنا کردار ادا کیا اور کررہے ہیں۔ ان دنوںسب سے زیادہ محفوظ شہید کینال پر فوکس کیا جارہا ہے، ایک سو چھہتر کلومیٹر لمبائی کی یہ نہر سلمانکی ہیڈ ورکس سے فورٹ عباس تک تعمیر کی جانا ہے، جسے چناب سے بھی پانی دیا جائے گا اور منصوبے کے تحت فورٹ عباس کے بعد اس میں مروٹ اور ڈھنڈوالا تک توسیع کی جائے گی۔

یاد رہے کہ بنیادی طور پر گرین انیشیٹو پروگرام کے تحت اس منصوبے کو شروع کیا جارہا ہے۔ منصوبہ سازوں کا کہنا ہے کہ یہ نہر بنجر علاقوں کو قابلِ کاشت بنانے اور زرعی مستقبل کی علامت ہے۔ نئے نہری منصوبے کی مخالفت کرنے والی پی ٹی آئی اور پی پی کے اراکینِ پارلیمان کو محفوظ شہید نہر کو ایک ماڈل بناتے ہوئے ایک پیج پر لایا جارہا ہے جس کی ابتدا جنوبی اور وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین سے کی گئی ہے جنہیں اس نہر سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں۔ اس کے اگلے مرحلے میں دیگر اراکین کو بھی تمام نہروں پر ایک پیج لانے کی کوشش کی جائے گی۔ ان اراکین پارلیمان کو اپنی پارٹی کی مرکزی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لئے اپنا نکہ نظر بیان کرنے پر زور دیا گیا اور ان کے موقف کو ریکارڈ کرکے بھی مشتہر کیا جارہا ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ دریائے ستلج کا سندھ میں داخل ہونے والا پانی متاثر نہیںہوگا اور دو ماہ کیلئے اس دریا سے پنجاب کے طے شدہ حصے سے پانی استعمال کیا جائے گا اور ایسا کرنے کا پنجاب کو ارسا کے معاہدے کے تحت حق حاصل ہے۔

ان اراکین میں سے پی ٹی آئی کے میاں غوث محمد، ملک واصف مظہر راں اور پیپلز پارٹی کامران عبداللہ مڑل شامل ہیں۔ ان کے بیانئے کے مطابق  محفوظ شہید نہر چولستان کے بنجرعلاقوں کو قابل کاشت بنانے کیلئے وقت کی ضرورت ہے۔ ملک واصف راں کے ریکارڈ شدہ بیا ن کے مطابق کچھ لوگ نہر محفوظ شہیدکے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں، یہ نہر دریائے ستلج سے سے نکل رہی ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے میں بھی مدد ملے گی۔ پانی کے ذرائع کو بہتر استعمال میں لا کر چولستان، جنوبی پنجاب کے عوام کا مستقبل بہتر بنایا جائیگا۔ ملک واصف راں کہتے ہیں کہ میں صرف پنجاب کی بات نہیں کرتا، ایسی نہریں سندھ اور بلوچستان سے بھی نکلنی چاہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی ہی کے رکن قومی اسمبلی میاں غوث محمد کا کہنا ہے کہ پنجاب کی بنجر زمینوں کو گرین پاکستان کے نام پر آباد کیا جا رہا ہے۔ اس بیانئے کے مطابق ان نہروں سے وہ پانی جو سمندر برد ہو جاتا ہے، کاشت کاری کیلئے کام آئے تو فائدہ ہوگا۔ میاں غوث محمد کے مطابق ان کا حلقہ چولستان ہے اور ان نہروں سے وہاں کی تقریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ آبادی کو فائدہ ہوگا۔ اس لئے یہ نہریں نکالی جانی چاہئیں، بجائے اس کے یہ پانی سمندر برد ہو کر ضائع ہو جائے۔ اسی طور پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی میاں کامران عبداللہ مڑل کا کہنا تھا کہ نہروں کے حوالے سے غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے دریائے ستلج کا پانی استعمال ہوگا۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی نئی نہر یں زراعت کی ترقی کیلئے نہایت اہم قرار دیتے ہیں ان کے بیانئے بھی جاری کیے گئے ہیں ۔

چنیوٹ سے مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی غلام محمد لالی کا کہنا ہے کہ پنجاب کا بھی پانی پر اتنا ہی حق ہے جتنا دیگر پاکستان کا ہے۔ پنجاب کا بہت سارا علاقہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے بنجر ہے۔ چنیوٹ میں سالانہ چلنے والی نہریں پندرہ دن چلتی ہیں اور اتنے ہی دن بند رہتی ہیں۔ نئی یا دیگر نہروں میں ہمیں پنجاب کے پانی کا پورا حق چاہئے۔ نئی نہروں کے حوالے سے ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی رانا اقبال سراج کا کہنا ہے کہ چولستان، تھر سندھ اور بلوچستان کی غیر آباد زمینوں کو ہمیں آباد کرنا چاہئے۔

فیصل آباد سے سنی اتحاد کونسل ( پی ٹی آئی ) کے رکن پنجاب اسمبلی جاوید نیاز منج کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے۔ گزشتہ حکومتوں میں سے کسی نے بھی پانی کے ایشو پر کوئی خاص فیصلے نہیں کئے۔ آج کل نہروں کا مسئلہ چل رہا ہے۔ سندھ کہہ رہا ہے کہ دریائے سندھ سے نہر نہ نکالی جائے اس کو آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے، اگر پانی کے ریزروائر بنا لیں تو اس سے پوٹھوہار ، چولستان اور تھر آباد ہوسکتے ہیں۔ ہم اپنے پانی کو جولائی، جون اور اگست کے مہینوں میں سمندر برد کردیتے ہیں۔ اس کو ذخیرہ نہیں کرتے، ہمارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم پانی ذخیرہ کریں اور پاکستان کو سرسبز کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔