امت رپورٹ :
افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے اور غیر قانونی افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق ڈیڈ لائن میں محض دس دن رہ گئے ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے اکتیس مارچ کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔ تاہم اب تک اس سلسلے میں ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی، جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ ڈیڈ لائن دیئے جانے کے بعد سے کتنے افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں، جیسا کہ دو ہزار تئیس میں گئے تھے۔
سرکاری طور پر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ متعلقہ ڈیڈ لائن ختم ہونے پر واپس نہ جانے والے افغان مہاجرین کے خلاف کیا کارروائی ہوگی۔ لیکن سرکاری ذرائع کے حوالے سے ضرور کہا جارہا ہے، جو افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر اور غیر قانونی افغان مہاجرین اکتیس مارچ تک رضاکارانہ طور پر واپس نہیں جائیں گے، ان کے خلاف یکم اپریل سے کریک ڈاؤن شروع کردیا جائے گا۔ اس سلسلے میں تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ یکم اپریل ممکنہ طور پر عید الفطر کا دوسرا روز ہوسکتا ہے، تو کیا عید پر ان لوگوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے گا، جنہیں چار دہائیوں تک ہم نے اپنی پلکوں پر بٹھایا، یا انہیں کچھ دنوں کی مہلت دے دی جائے گی۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ پاکستان میں مجموعی طور پر اس وقت کتنی تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں اور ان کی تین کٹیگریز کونسی ہیں۔
افغان مہاجرین اور پاکستان کا تعلق تقریباً پینتالیس سال پرانا ہے۔ جب دسمبر انیس سو اناسی میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو افغانستان سے مہاجرین کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ دس برس یہ جنگ جاری رہی۔ اس دوران لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے۔ تقریباً ستائیس برس تک یہ لاکھوں افغان مہاجرین بغیر کسی شناختی ڈاکومنٹ کے پاکستان میں زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ تاہم دو ہزار سات میں نادرا کی جانب سے افغان مہاجرین کے لیے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز جاری کئے گئے۔ یہ پی او آر کارڈ ایک ایسی شناختی دستاویز بن گئے جس کے تحت افغان مہاجرین کو قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت مل گئی۔
اس ڈاکومینٹیشن کا ایک مقصد ملک بھر میں افغان مہاجرین کے کوائف مرتب کرنا بھی تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے پی او آر کارڈ کی تعریف ان الفاظ میں کر رکھی ہے ’’رجسٹریشن کارڈ کا ثبوت افغان مہاجرین کے لیے ایک شناختی دستاویز ہے جو آپ کو قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کا حق دیتا ہے۔ یہ کارڈ پورے پاکستان میں کارآمد ہے۔ یہ ضروری ہے کہ رجسٹرڈ افغان اپنے پی او آر کارڈ ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں اور مطالبہ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پیش کریں۔ پی او آر کارڈ سفری دستاویز نہیں ہے اور یہ آپ کو بشمول پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔
اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد اکتیس لاکھ سے سینتیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ان میں پی او آر کارڈ ہولڈرز تقریباً چودہ لاکھ ہیں۔ اکتوبر دو ہزار تئیس میں اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ رجسٹر اور غیر رجسٹر افغان مہاجرین کی تعداد سینتیس لاکھ ہے۔ دو ہزار تئیس میں عبوری دور حکومت کے دوران تقریباً آٹھ لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی ہوئی۔ اگر اس تعداد کو مائنس کردیا جائے تو تب بھی افغان مہاجرین کی تعداد انتیس سے تیس لاکھ بنتی ہے۔
جب دو ہزار سات میں تمام افغان مہاجرین کو قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کے لیے پی او آر کارڈ بنانے کی ہدایت کی گئی تو ایک بڑی تعداد اس عمل میں شریک ہی نہیں ہوئی۔ تاہم دو ہزار سترہ میں جاکر باقیماندہ افغان مہاجرین کو قانونی شناختی دستاویز حاصل کرنے کا ایک اور موقع دیا گیا۔ اس سلسلے میں انہیں نادرا کی جانب سے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) جاری کیے گئے۔ اس شناختی دستاویز کے ذریعے مزید افغان مہاجرین کو پاکستان میں قیام کی عارضی قانونی حیثیت مل گئی۔ اے سی سی افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی تعداد آٹھ سے نو لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن اکتیس مارچ کے بعد ان تمام اے سی سی کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین کی حیثیت بھی غیر قانونی ہوجائے گی۔ کیوں کہ پہلے مرحلے میں حکومت نے اے سی سی کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔
ان دو کٹیگریز کے علاوہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی تیسری کٹیگری وہ ہے جن کے پاس دونوں میں سے کوئی کارڈ نہیں۔ سرکاری طور پر ایسے غیر قانونی تارکین وطن افغان باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد آٹھ سے دس لاکھ ہے۔ اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر اور غیر قانونی تارکین وطن’ دونوں کے لیے ہے۔ جبکہ آخری مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہولڈرز کو مزید تین ساڑھے تین ماہ پاکستان میں قیام کی مہلت دی گئی ہے جو جون دو ہزار پچیس تک ہے۔
اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد واپس نہ جانے والے اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف حکومت کی جانب سے یکم اپریل کو کریک ڈائون کی تیاریوں کی خبریں چل رہی ہیں۔ جس کے مطابق افغان طلبا و طالبات کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جارہا ہے۔ ایک فارم کے ذریعے یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔ اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے علاوہ ان لوگوں کا ڈیٹا بھی جمع کیا جارہا ہے جنہوں نے افغان شہریوں کو مکانات اور دکانیں کرائے پر دے رکھی ہیں۔ تاکہ مکانات اور دکانوں کے یہ پاکستانی مالکان اکتیس مارچ تک ہر صورت اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں سے اپنی پراپرٹی خالی کرالیں۔اس سلسلے میں تمام متعلقہ ادارے متحرک ہوچکے ہیں۔
اے سی سی کارڈ ہولڈرز یا پی او آر کارڈ رکھنے والوں میں سے کسی کو بھی پاکستان میں جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ متعلقہ کارڈ ہولڈرز نے مکانات اور دکانوں سمیت جس بھی شکل میں پاکستان میں پراپرٹی خریدی، وہ اپنے پاکستانی واقف کاروں اور دوستوں کے نام پر خریدی گئی۔ اس حوالے سے بہت سا ڈیٹا اکٹھا کیا جاچکا ہے اور یہ عمل جاری ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن تک انتظار کرے گی کہ رضاکارانہ طور پر کتنے اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی افغان مہاجرین واپس جاتے ہیں۔ اس کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔
اس عمل کے دوران غیر قانونی افغان مہاجرین اور اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو مکانات اور دکانیں کرائے پر دینے والے پاکستانیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ وفاق کی جانب سے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی جاچکی ہے کہ وہ اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن تک اے سی سی اور غیر قانونی افغان مہاجرین کی بے دخلی کو یقینی بنائیں۔ یکم اپریل کو کریک ڈاؤن شروع ہوجائے گا۔ یکم اپریل ممکنہ طور پر پاکستان میں عید کا دوسرا روز ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا پاکستان کیا عیدالفطر پر کریک ڈائون کرے گا یا مزید چار پانچ دن کی مہلت دے دی جائے گی۔
حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو افغان مہاجرین اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن تک رضاکارانہ طور پر واپسی کریں گے، انہیں کھانے پینے سمیت ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ تاہم جو حکومتی احکامات کو نظر انداز کر دیں گے، ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔ پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز نومبر دو ہزار تئیس میں ہوا تھا، ان میں اکثریت افغان باشندوں کی تھی۔ تب سے اب تک آٹھ لاکھ غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو واپس بھجوایا جاچکا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے برعکس حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد چوالیس لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے چون فیصد خیبرپختونخوا میں ہیں۔ چوبیس پرسنٹ کے قریب بلوچستان اور باقی کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہیں۔ ذرائع کے مطابق خاص طور پر جڑواں شہروں اسلام آباد و راولپنڈی میں مقیم اے سی سی کارڈ ہولڈرز افغان باشندوں کو وہاں سے نکال کر خیبر پختونخوا میں افغان بارڈر کے پاس کیمپوں میں پہنچایا جائے گا، تاکہ آسانی سے ڈی پورٹ کیا جاسکے۔ افغان مہاجرین کی اکثریت پاکستان میں چار دہائیوں سے آباد ہے۔ یہاں ان کی شادیاں ہوئیں۔ بچے پیدا ہوئے۔ کاروبار ہیں۔ پراپرٹی ہے اور ان کی تیسری نسل یہاں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ لہٰذا اس قدر مختصر عرصے میں ان کا سب کچھ چھوڑ کر جانا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی نمائندہ متحدہ مرکزی اعلیٰ شوریٰ کے چیئرمین میاں خیل بریالے اور دیگر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مزید ایک برس کا وقت دیا جائے۔ گزشتہ دنوں پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا ’’پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے۔ پاکستان حکومت اور عوام نے افغان مہاجرین کو چالیس سال جو عزت دی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمیں اکتیس مارچ تک کا جو ٹائم دیا گیا ہے، وہ بہت کم ہے۔ اس میں ایک سال کی توسیع کی جائے‘‘۔