عمران خان :
ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار انسانی اسمگلروں کے بدنام زمانہ ججہ گروپ کے اہم کارندے عثمان ججہ سے مکمل معلومات کے حصول میں ایف آئی اے کو تاحال ناکامی کا سامنا ہے۔ اس اہم گروپ کو ایف آئی اے سمیت کئی سرکاری اداروں کی کالی بھیڑوں کی مکمل سہولت کاری برسوں سے حاصل ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ گروپ کا سرغنہ خرم ججہ بھی اپنے دیگر قریبی ساتھیوں سمیت ایف آئی اے کی گرفت سے باہر ہے۔ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی تحصیل پسرور سے تعلق رکھنے والے اس گروپ کے ایجنٹ پاکستان کے علاوہ ترکی، لیبیا، یونان، اٹلی اور دیگر ممالک میں سرگرم ہیں۔ جن کے پاکستان سے لے کر بحیرہ روم تک بین الاقوامی انسانی اسمگلرز، لانچوں اور ڈنکی میں استعمال ہونے والی دیگر گاڑیوں کے مالکان سے انتہائی مضبوط تعلقات ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے نے اب تک پاکستان سے یورپ تک انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے والے دو بڑے گروپوں ججہ گروپ اور سنیارا گروپ کو ٹریس کرکے ان کے اہم ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کے بعد اسی ہفتے ایف آئی اے اور آئی بی کے افسران نے ان گرفتاریوں پر اپنی رپورٹیں اعلیٰ حکام کو پیش کرکے وزیر اعظم سے نقد انعام اور تعریفی اسناد کے ساتھ ساتھ شاباشی بھی وصول کرلی ہے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی اے حکام نے ابھی اس عالمی نیٹ ورک کے پاکستان میں موجود چند کارندے ہی پکڑے ہیں۔ سرغنہ اور اصل افراد اور بیرون ملک سکون سے بیٹھے ہیں اور ان کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے واپس لانے کیلئے تاحال کوئی ٹھوس کیس ایم ایل اے کی صورت میں نہیں بھیجا گیا ہے۔ اور اگر ماضی میں بھیجا بھی گیا تو اس میں شواہد کی کمی کی وجہ سے انٹر پول اور یورپی ممالک کے حکام نے اس پر نوٹس ہی نہیں لیا۔ معلومات کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں ایف آئی اے نے انٹیلی جنس بیورو کے ساتھ مل کر پاکستان سے نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر یورپ بھجوانے میں ملوث ایک بڑے اور اہم نیٹ ورک ’’ججہ گروپ‘‘ کے مرکزی کردار عثمان ججہ کو ٹریس کرکے گرفتار کیا۔
ملزم کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس گروپ کے دیگر اہم کارندوں کی طرح سیالکوٹ کے علاقے پسرور میں گاؤں مہر کے ججہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق عثمان ججہ ضمانت ملنے کے بعد گرفتاری سے بچ رہا تھا۔ تاہم اسے ایف آئی اے نے 10 مارچ 2025ء کو انسانی اسمگلنگ کے متعدد مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔ وہ گزشتہ سال یونان میں کشتی کے حادثے کا بھی ایک اہم ملزم ہے۔ اس سے قبل عثمان ججہ ضمانت پر سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل سے رہا ہونے کے بعد گرفتاری سے بچ گیا تھا۔ ملزم کو کم از کم 19 مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ مشتبہ شخص بدنام زمانہ خرم ججہ گروپ کا رکن ہے۔ جو 2024ء میں یونان کشتی حادثے میں ملوث رہا ہے۔ جبکہ ملزم سیالکوٹ جیل سے رہا ہونے کے بعد گلگت بلتستان فرار ہوگیا تھا۔ کیونکہ اسے پولیس نے پرتشدد تصادم کے ایک معاملے میں گرفتار کیا تھا۔ اور یونان میں کشتی الٹنے سے ہلاکتوں کا افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ جیل میں تھا۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول گرفتاری کے بعد عدالت کی جانب سے عثمان ججہ سے تفتیش کیلئے ایف آئی اے کو غیر معمولی طور پر 6 روزہ جسمانی ریمانڈ پر دیا گیا۔ تاکہ اس اہم ملزم سے مکمل تفتیش کرکے پورے نیٹ ورک تک پہنچا جا سکے اور دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا جاسکے یا ان کی بیرون ملک سے انٹرپول کے ذریعے پاکستان منتقلی کیلئے ٹھوس شواہد پر مشتمل کیس ایف آئی اے کے ذریعے تیار کیا جاسکے۔ تاہم ان چھ دنوں میں ایف آئی اے عثمان ججہ سے معلومات اگلوانے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو جب 4 روز قبل دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تو مزید ریمانڈ مانگا گیا۔ جس کیلئے دوران سماعت ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عثمان ججہ چالاک ہے اور حقائق چھپا رہا ہے۔ مزید یہ کہ ملزم تفتیش میں تعاون نہیں کر رہا۔ جس کی وجہ سے چھ روزہ جسمانی ریمانڈ میں ملزم کے عدم تعاون کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم سے انسانی اسمگلنگ کے عالمی گروہ بارے معلومات حاصل کرنی ہیں۔ کشتی حادثے میں کئی لوگ مارے گئے ہیں۔ ملزم سے شہریوں سے لوٹی گئی رقم بھی ریکور کرنی ہے۔ ملزم کا مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ دوسری جانب ملزم عثمان ججہ نے عدالت میں سارا ملبہ اپنے بھائی پر ڈال دیا۔ عثمان ججہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انسانی اسمگلنگ کا کام ملزم کا بھائی کرتا ہے۔ خرم ججہ بیرون ملک ہے۔ بھائی ہاتھ نہ آنے پر ایف آئی اے نے عثمان ججہ کو پکڑ لیا۔ عثمان ججہ نے کہا کہ وہ عراق میں قالینوں کا کاروبار کرتا ہے۔ عراق سے واپس آیا تو ایف آئی اے نے گرفتار کر لیا۔
بعدازاں عدالت نے خطرناک انسانی اسمگلر عثمان ججہ کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 4 روز کی توسیع کے احکامات جاری کردیئے۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول ججہ گروپ کا سرغنہ عثمان کا بھائی خرم ہی ہے۔ جو بیرون ملک موجود ہے۔ اس گروپ اور اس کے ہم پلہ سنیارا گروپ کے سرغنے لیبیا، ترکی، یونان، اٹلی اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ جن کے کارندے عراق، مصر، مراکش، تیونس، سینیگال، آسٹریا، بوسنیا اور دیگر بلقان ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔ ان کے ذریعے پاکستانیوں کو پاکستان سے ان ممالک میں وزٹ ویزوں پر لاکر بعد ازاں بحیرہ روم سے یورپ منتقل کیا جاتا ہے۔ ان دونوں گروپوں کے اہم کارندوں کے حوالے سے ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر احسان صادق کی انکوائری رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس میں جن ایجنٹوں کے نام بتائے گئے ہیں ان میں سعد، شہروز فوجی، علی، خرم، سلیمی، نبیل احمد، ندیم، عثمان، ثاقب ارشد، قیصر رئوف، آصف ججہ، مٹھو اور حاجی جبار شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے اہم ملزمان کی گرفتاری پر ایف آئی اے ٹیم کو شاباشی دینے کے موقع پر بیان دیا گیا کہ انسانی اسمگلنگ کے اس ناسور کو جلد جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ جو ملک کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ تاہم لانگ ٹرم پالیسیوں کی تبدیلی اور ان کے موثر نفاذ کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ جس کا اندازہ ان اعدادوشمار اور سرکاری کارکردگی سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2023ء سے لے کر 2025ء کے آغاز تک بحیرہ روم سے تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر یورپی ممالک میں منتقل کرنے والی متعدد کشتیوں کے حادثوں میں 600 سے زائد پاکستانیوں کے ڈوب جانے کے بعد حکومتی سطح پر انسانی اسمگلرز کے اس روٹ کے خلاف سنجیدہ کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا۔ کیونکہ اب تک ایسے 5 واقعات پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی کا بہت بڑا سبب بن چکے ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ 2 برسوں کے دوران وزیراعظم ہاؤس کی ہدایات پر ہونے والی ملک گیر کارروائیوں میں اب تک ایف آئی اے کے ہیومن ٹریفکنگ سرکلز کی جانب سے 100 سے زائد ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم صرف ایک ہی ملزم کو عدالت سے سزاسنائی جاسکی ہے۔
اسی طرح سے اس عرصہ میں اس روٹ پر ہونے والے حادثات اور انسانی اسمگلنگ کی وارداتوں کے حوالے سے ملک بھر میں 400 سے زائد انکوائریاں اور مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی اسمگلرز اور ایجنٹوں کو سرکاری سہولت کاری کی محکمہ جاتی تحقیقات میں ایف آئی اے کے 100 کے قریب افسران اور اہلکاروں کے خلاف انکوائریاں جاری ہیں۔ جن میں سے 70 سے زائد کو معطل یا نوکریوں سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ کیونکہ ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر احسان صادق کی سربراہی میں ہونے والی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ جس دوران یہ پاکستانی شہری اسلام آباد، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور کراچی کے ایئرپورٹس سے بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت مذکورہ افسران اور اہلکاروں نے ان کی دستاویزات چیک کرکے انہیں بیرون ملک جانے کیلئے امیگریشن کلیئرنس دی تھی۔
تاہم اس ضمن میں امیگریشن کے ایف آئی اے افسران کا موقف ہے کہ ان کے خلاف کارروائیاں حکومت کی جانب سے ایف آئی اے حکام پر آنے والے دباؤ کو کم کرنے اور کارکردگی ظاہر کرنے کیلئے کی گئیں۔ کیونکہ ایف آئی اے امیگریشن کی جس ایس او پی 27/2005 کے تحت امیگریشن کا عملہ ایئر پورٹوں سے بیرون ملک جانے والوں کو کلیئرنس دیتا ہے۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جن مسافروں کے پاس تمام دستاویزات اصل اور مستند ہوں گی اور ان کے کوائف عالمی ہوا بازی کے ادارے ایاٹا کے مینوئل کے مطابق ہوں گے۔ ان کو امیگریشن کلیئرنس دی جائے گی۔
اس پروفائلنگ کو TIM یعنی ٹریولر انفارمیشن مینوئل کہا جاتا ہے۔ اب اگر تازہ ایڈوائزری پر ایف آئی اے کا عملہ شہریوں کو صرف شک کی بنیاد پر یا ان کی نیت کی بنیاد پر روکتا ہے تو وہ فوری طور پر اپنے ٹکٹ، ویزے اور ٹریول ایجنٹوں کو دی جانے والی فیس کی مد میں لاکھوں روپے کا نقصان ہونے پر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں سے ایف آئی اے امیگریشن کے عملے سے باز پرس کی جاتی ہے۔ طویل عرصہ سے یہی بحث کی جارہی ہے کہ وزارت داخلہ اپنے امیگریشن کے ایکٹ میں ترمیم کرکے بااختیار بنائے۔ جس کو عدالتوں میں پیش کرکے وہ اپنے کیس مضبوط کرسکیں۔ تاہم ایسا کرنے کے بجائے وقتی اقدامات صرف اعلیٰ حکام کو محفوظ بنانے کیلئے کیے جاتے ہیں۔ تاکہ اگر پھر کوئی ایسا سانحہ پیش آئے تو کہا جاسکے کہ ایڈوائزری جاری کی گئی تھی اور ماتحت عملے پر نزلہ گرایا جا سکے۔