صوبے میں زیر تعلیم افغان طلبہ کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے، فائل فوٹو
 صوبے میں زیر تعلیم افغان طلبہ کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے، فائل فوٹو

گنڈا پور افغانیوں کے ’’ہیرو‘‘ بن گئے

محمد قاسم :
افغان باشندوں کی واپسی پر وفاق اور کے پی حکومت آمنے سامنے آگئی۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی مخالفت سے افغان باشندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ اطلاعات ہیں کہ راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں مقیم افغانوں نے پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کا رخ کر لیا ہے۔ ادھر حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے 48 ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور اسکریننگ کا عمل بھی تیز کر دیا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صوبے کے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ کا ڈیٹا جمع کرنے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبعلموں کی تفصیلات معلوم کرنے کیلئے خصوصی فارم بھی جاری کیا گیا ہے۔ جس کے تحت فارم میں ضلع، اسکول اور دیگر بنیادی معلومات درج کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تمام تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے میں افغان طلبہ کا ڈیٹا فراہم کرنے کا ہدف دیاگیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو 31 مارچ واپس بھیجنے کی ڈیڈ لائن پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے اعتراض نے فیڈریشن اور صوبے کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وفاق اور صوبے کے درمیان معاملات مزید سر دمہری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت نے افغان باشندوں کیلئے نئی امید پیدا کر دی ہے اور انہوں نے خیبرپختون کا رخ کرلیا ہے۔

راولپنڈی میں موجود ’’امت‘‘ کے ذریعے نے بتایا کہ راولپنڈی میں محنت مزدوری کرنے والے افغان مہاجرین واپس اپنے ملک جانے کے اعلان پر کافی بے چین تھے۔ لیکن وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت نے ان کو نئی امید دی ہے اور انہوں نے پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے 48 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ جبکہ اسکریننگ کا عمل بھی تیز کردیا گیا ہے۔ حکومتی ٹیموں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس حکومت کو بھجوائی جارہی ہیں۔ جبکہ ٹیموں میں پولیس، ضلعی انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت کمشنریٹ افغان مہاجرین وغیر ہ شامل ہیں۔ اسی طرح مختلف تھانوں کی سطح پر بھی ٹیموں کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہیں۔ جبکہ اے سی سی اور پی او آر ہولڈر افغان شہریوں کی دکانوں اور گھروں کے حوالے سے تحریری ضمانت نامے لیے جائیں گے۔ پشاور کے مختلف مقامات پر کرائے پر رہائش پذیر اور کرائے کی دکانوں کے کاروبار کرنے والے افغان مہاجرین کے مالکان سے رابطے بھی شروع کر دیئے گئے ہیں۔

جبکہ ذرائع کے بقول پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں سے بھی رابطے کیے گئے ہیں اور پشاور کے مختلف بازاروں اور علاقوں میں افغان شہریوں کی اسکریننگ کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک پشاور سمیت صوبہ بھر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد خاندانوں نے واپسی کیلئے رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا ہے۔ جبکہ سینکڑوں رجسٹریشن کیلئے رابطہ کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں 10 روز رہ گئے ہیں۔ جس کے بعد گرینڈ آپریشن کا امکان ہے۔ تاہم ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کو واپس اپنے ملک جانے کیلئے 31 مارچ کی تاریخ دی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور افغان مہاجرین کے حوالے سے دیے جانے والے بیانات نے پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین کیلئے امید پیدا کردی ہے اور صوبہ اور وفاق آمنے سامنے آگئے ہیں۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بڑے پیمانے پر پنجاب اور سندھ سے افغان باشندے پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کا رخ کریں گے۔

جبکہ کوئٹہ میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ افغان مہاجرین ہیں۔ جن کی نہ صرف یہاں پر رشتہ داریاں ہیں۔ بلکہ بڑے بڑے کاروباربھی ان کے پاس ہیں۔ اس لئے وہ کسی صورت پاکستان چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اور سندھ سے افغانوں کی وطن واپسی ممکن ہے۔ تاہم بلوچستان اور خیبرپختون میں بڑی تعداد افغانوں کی موجود ہے، جو واپس جانے کیلئے تیار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔