امت رپورٹ :
لیہ کے بائیس سالہ نوجوان بلے باز حسن نواز نے نیوزی لینڈ میں دھاک بٹھا دی۔ تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں دو سو تینتیس کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ چوالیس بالز پر سنچری جڑنے والے حسن نواز اور ون ڈے میں سینتیس بالز پر سو رنز کا عالمی ریکارڈ بنانے والے بے مثل شاہد خان آفریدی میں قدرے مشترک یہ ہے کہ دونوں نے ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ اس میں حسن نواز کی مجبوری یہ تھی کہ وہ لیہ سے بھی چھ کلو میٹر دور جس چھوٹے پسماندہ گاؤں میں رہتا تھا، وہاں ہارڈ بال سے کوئی کرکٹ نہیں کھیلتا تھا۔
اپنے کرکٹ جنون کے بارے میں حسن نواز بتاتا ہے ’’مجھے جیب خرچ کے جو سو ڈیڑھ سو روپے ملتے تھے، وہ میں گاؤں کے سارے لڑکے اکٹھے کرکے انہیں دیتا تھا کہ مجھے بالنگ کراو۔ جنون بڑھتا گیا تو میں نے اپنے گھر سے چھ سات کلومیٹر دور واقع آزاد کرکٹ کلب جوائن کرلیا۔ اس کلب کے لڑکے صرف موسم سرما کے تین چار ماہ کرکٹ کھیلتے تھے، کیونکہ لیہ میں گرمی بہت ہوتی ہے۔ انہوں نے میرے شوق اور ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ کسی اور شہر چلے جاؤ۔‘‘ پھر حسن نواز اسلام آباد شفٹ ہوگیا، جہاں اس کی ایک بہن رہائش پذیر تھی اور وہ اس کے گھر ہی ٹھہرا۔ حسن نواز کا کیریئر بنانے میں اس بہن کا بڑا رول ہے۔
اجنبی شہر میں جب حسن نواز نے لکی اسٹار کرکٹ کلب جوائن کیا تو یہ اس کی بہن ہی تھی جو سولہ سترہ سالہ حسن نواز کو کرکٹ کلب چھوڑ کر اور لے کر آتی تھی۔ جنون رنگ لانے لگا تھا، حسن نواز کو انڈر نائنٹین کا حصہ بنایا گیا لیکن کوئی میچ کھیلنے کو نہیں ملا۔ مگر اسی برس اسے کے پی ایل کھیلنے کا موقع ملا اور وہ اس ایونٹ کا دوسرا سب سے زیادہ رنز بنانے والا بیٹسمین تھا۔ قسمت کا تالا کھلنا شروع ہوچکا تھا۔ حسن نواز نے پھر پی ایس ایل بھی کھیلا، جس کے بعد وہ کرکٹ پنڈتوں کی نظروں میں آنے لگا۔ وہ اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز دونوں کی جانب سے کھیلا۔ چیمپیئن کپ میں بھی اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ یہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی ہی تھی، جس نے اسے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا حصہ بنایا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے پہلے دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں وہ صفر پر آؤٹ ہوا تو ناقدین کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں،جس کا جواب اس نے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں اپنی برق رفتار سنچری سے دیدیا ہے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا حسن نواز اپنی اس کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھ سکے گا؟ دراصل حسن نواز کا بڑا ڈس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ اب تک اس نے ساری کرکٹ پاکستان کی بے جان پچز پر کھیلی ہے اور اسے پہلی بار نیوزی لینڈ کی باؤنسی وکٹوں کا سامنا ہے ۔ حسن کے پاس ٹیلنٹ، جنون اور عزم کی کمی نہیں۔ بس نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کی باؤنسی پچز کا تجربہ اسے درکار ہے۔ اس راہ میں ناکامیاں بھی آسکتی ہیں۔ اچھی خبر ہے کہ موجودہ ٹیم منیجمنٹ ناصرف حسن بلکہ اس کے ساتھ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے محمد حارث سمیت نیوزی لینڈ ٹور کے دیگر نووارد کرکٹرز کو یہ تجربہ دلانے کے لئے حددرجہ مواقع دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ حسن نواز اور محمد حارث نے اپنی حالیہ کارکردگی سے بابر اعظم اور محمد رضوان کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اپنے لیے نہیں بلکہ ٹیم کے لئے کھیلا جاتا ہے۔
جب حسن نواز کی سنچری قریب تھی اور اسکور پورا ہونے والا تھا تو اس کے ساتھ کھیلنے والے کپتان سلمان علی آغا کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ حسن نواز کو کھیلنے کا موقع دیں تاکہ وہ اپنی سنچری مکمل کر لے۔ لیکن حسن نواز نے کپتان کو کہا کہ وہ اپنا گیم کھیلیں، اس کی سنچری تو کسی اور میچ میں بھی بن جائے گی۔ حالانکہ اپنے انٹرنیشنل کیریئر کی پہلی سنچری کے لیے بندہ کچھ نہ کچھ خود غرض ہوجاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں ٹیم اور ملک کے لئے کھیلنا جو بابر اور رضوان کو حسن نواز سے سیکھنا چاہیے ۔
اگر حسن نواز اور محمد حارث اپنی تازہ کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھتے ہیں تو یقیناً یہ بابر اعظم اور محمد رضوان کے لیے خطرے کی تلوار ہوگی۔ کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کے ٹور میں شکست اور فتح سے قطع نظر ان نوجوان کھلاڑیوں کو بھی کم از کم خود کو ثابت کرنے کے لیے اتنے مواقع ضرور ملنے چاہئیں جو ’’بابر فرینڈ الیون‘‘ کو ملتے رہے ہیں ۔ بعض ناقدین نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی کامیابی کو ’’اپ سیٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں پاکستان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط بھی نہیں ہے ۔
لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب ’’کنگ الیون‘‘ کے خود غرض اسٹارز کی موجودگی میں بھی ٹیم شرمناک طریقے سے ہار رہی تھی اور ’’اپ سیٹ ‘‘ سے بھی قاصر تھی تو ینگسٹرز کی چند شکستوں کو برداشت کرنے میں کیا عار ہے؟ ایسے میں صائم ایوب اور فخر زمان کی واپسی بھی ہونے والی ہے۔ جس سے ایک زبردست کمبی نیشن والی ٹیم وجود میں آسکتی ہے۔ لہٰذا وقت ہے کہ پرانے مغرور نام نہاد اسٹارز کو باہر بٹھا کر ایک نئے کمبی نیشن کے ساتھ اگلے برس ورلڈ کپ کے لیے ایک مضبوط ٹیم تیار کی جائے۔
اب تیسرے ٹی ٹوئنٹی کے کچھ تکنیکی باتوں کا ذکر ہو جائے۔ آکلینڈ دنیا کا سب سے چھوٹا کرکٹ گراؤنڈ ہے، جہاں یہ میچ کھیلا گیا۔ باؤنڈری چھوٹی ہونے کے سبب یہاں چوکے چھکے مارنا آسان ہے۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ دو سو سے اوپر کا ہدف حاصل کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کرکٹ تجزیہ نگار عرفان ظہیر کے بقول ’’دراصل یہ گراؤنڈ رگبی سمیت مختلف کھیلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ڈراپنگ پچز ہوتی ہیں۔ (یعنی پچز لا کر بچھائی جاتی ہیں جیسے امریکہ میں پچھلے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے دوران پچز آسٹریلیا سے امپورٹ کی گئی تھیں۔ آکلینڈ کی پچ پر سیم، سوئنگ اور باؤنس بھی ڈربلن اور کرائسٹ چرچ کی پچز کے مقابلے میں کم تھا۔‘‘
اگلے دو ٹی ٹوئنٹی میچز میں جو قدرے بڑے گراؤنڈز اور باؤنسی وکٹوں پر ہوں گے اور سیم اور سوئنگ بھی زیادہ ہوگی، وہاں محمد حارث اور حسن نواز کے لیے موقع ہوگا کہ وہ ان گراؤنڈز پر بھی اپنی شاندار کارکردگی کو دہرا کر ناقدین کا منہ مزید بند کردیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آکلینڈ میں نیوزی لینڈ کے دو سو پانچ رنز کے ہدف کو محمد حارث، حسن نواز اور سلمان علی آغا نے مل کر محض سولہ اوورز میں پورا کرلیا۔
اس کا مقصد ہے کہ اگر نیوزی لینڈ دو سو ساٹھ رنز کا ہدف بھی دیتا تو حاصل کرلیا جاتا۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان تینوں کا اسٹرائیک ریٹ بالترتیب دو سو پانچ، دو سو تینتیس اور ایک سو چونسٹھ تھا جو ماڈرن ڈے کرکٹ کے معیار کے عین مطابق ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں تیز ترین سنچری بنانے کا ریکارڈ اے ڈی ویلیئرز کا ہے جو انہوں نے محض تینتیس گیندوں پر بنائی تھی۔ جبکہ پاکستان میں یہ ریکارڈ انچاس رنز کے ساتھ بابر اعظم کے پاس تھا، جو حسن نواز نے توڑ دیا ہے۔