کاشف ہاشمی :
وفاقی ادارے ایف آئی اے نے ملزم ارمغان کے پاس ملازمت کرنے والے80 ملازمین جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے چند ملازمین کا ایف آئی اے میں انٹرویو بھی ہوا ہے اور مزید ملازمین کا انٹرویو کیا جارہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ارمغان ہر وقت ویڈ کے نشے میں دھت ہوتا۔ اپنے اسٹاف میں شامل لڑکیوں کو گالیاں دیتا تھا۔ کسی ملازم کو کسی دوسرے ملازم سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ارمغان کے گھر پر جدید گاڑیوں کی بھرمار تھی۔ اس کے ہاتھ میں روز کوئی جدید اسلحہ ہوتا تھا۔
مصطفی عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان قریشی ولد کامران اصغر قریشی عرف ڈان عرف لوٹر کے کال سینٹر میں کام کرنے والے ملازم (ج) نے نام نہ ظاہر کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ارمغان ایک نفسیاتی شخص تھا۔ کبھی اچھی طریقے سے بات کرتا تھا تو کبھی غصہ میں آکر بدتمیزی کرنے لگ جاتا۔ ملازم نے بتایا کہ ’’میں نے جاب مستقبل ڈاٹ کام سے حاصل کی۔ جب میں 2023ء میں ارمغان کے کال سینٹر میں ملازمت حاصل کرنے گیا تو وہاں ارمغان نے میرا انٹرویو کیا۔ انگلش میں بات کی اور میرا لنگویج ٹیسٹ لیتا رہا۔
ویب سائٹ پر تنخواہ ایک لاکھ روپے لکھی گئی تھی اور ماہانہ ایک لاکھ روپے پر ہی مجھ رکھا گیا۔ مگر تین مہینے بعد اچھی پرفارمنس پر میری سیلری ساڑھے 3 لاکھ کردی گئی۔ میرے لیے اس عمر میں یہ اچھی سیلری تھی۔ آفس جوائن کرنے کے بعد مجھے اس وقت کافی دھچکے لگے جب میں اس کے گھر گیا۔ جہاں اس کا آفس تھا۔ میری گاڑی باہر پارک کی گئی اور اندر گارڈز نے اچھی طرح تلاشی لی۔ جب میں اس کمرے میں جہاں کال سینٹر بنا ہوا تھا، پہنچا تو بائونسرز نے بھی مجھے چیک کیا۔
ارمغان نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی ملازم یو ایس بی سمیت کسی قسم کی کوئی ڈیوائس لیکر آئے۔ ماحول بہت سخت تھا۔ کسی سے زیادہ بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مجھے کافی تعجب ہوا کہ یہاں موبائل فون بھی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ میں اپنے گھر میں یہ کہتا تھا کہ وہاں سگنلز کی پرابلم ہوتی ہے۔ چونکہ ہمارے آفس کے کولیگز سے ہم بات بھی نہیں کرتے تھے۔ اس لئے آپس میں نمبرز بھی شئیر نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم ہمارے ساتھ کام کرنے والوں نے ایک دوسرے کو نمبر دے رکھے تھے۔ کال سینٹر میں سختی بہت تھی۔ ہمارے آفس کا کوئی واٹس ایپ گروپ بھی نہیں تھا۔
ارمغان زیادہ تر آفس میں ہی رہتا تھا۔ وہیں کھاتا اور سوتا تھا۔ باہر کم ہی جانا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار پی سی ہوٹل یا میریٹ ہوٹل کھانا کھانے ہم سب کو لیکر جاتا تھا۔ ارمغان کے حکم کو نہ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ لہذا جو نہیں جاتا تھا۔ وہ اسے زبردستی لے کر جاتا تھا۔ مطلب اگر کسی کو نہیں جانا تو سمجھ لیں وہ ہرصورت جائے گا۔ ورنہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
ارمغان کا اصل نام تو ہمیں اس مرڈر کے بعد معلوم ہوا۔ ہمارے آفس میں ارمغان کو ہم سب باس کہتے تھے یا پھر ایلکس۔ آفس میں میرے جتنے بھی کولیگز تھے، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، سب کی تلاشی لی جاتی تھی‘‘۔ ملازم (ج) نے بتایا کہ ’’مجھ سمیت تمام ملازمین کو کال سینٹرز میں ٹاسک دیے جاتے تھے کہ سات لوگوں کو اپنی کمپنی سے رجسٹرڈ کرنا ہے۔ اور اگر سات لوگ رجسٹرڈ کروانے کیلیے راضی ہو جاتے تھے تو ہمیں ایک لاکھ روپے بونس دیا جاتا تھا۔ ہم دل جوئی سے کام کرنے لگے تھے۔ ہمارا کام تھا کہ غیر ملکی تاجروں کو ان کے کاروبار کا ٹریڈ مارک حکومتی سطح پر رجسٹرڈ کروانا تھا۔
رجسٹریشن کیلئے ہم جس شخص کو کال کرتے تھے۔ اس شخص کے ہی ملک کے سرکاری نمبر سے انہیں کال کیا کرتے تھے۔ ویب سائٹ پر موجود نمبر کو اسپوفنگ کال کے ذریعے غیر ملکیوں کو کال کرکے انہیں ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کروانے کا کہتے تھے۔ جو بھی شخص یہ دیکھتا تھا تو وہ سرچ کرتا تھا اور اسے ویب سائٹ پر جاکر تفصیلات دکھتی، جس سے وہ بھی ہم سے مطمئن ہوجاتا تھا۔
ویب سائٹ پر مثال کے طور پر 4 ہزار ڈالر رجسٹریشن کے لکھے ہوتے تھے تو ہم پہلے ہی اسے یہ فیس بتا چکے ہوتے تھے۔ پھر متاثرہ شخص ہم پر بھروسہ کرکے ہمیں اپنے کریڈٹ کارڈ کی پوری ڈیٹیل دے دیتا تھا۔ جب اس کا کارڈ چارج کرتے تھے تو اپروو ہوجاتا تھا۔ جس سے اس کا بینک بیلنس ارمغان کے کنٹرول میں ہوجاتا تھا۔ جب ہم نے کام شروع کیا تو ہمارے ساتھ 12 لوگوں کی ٹیم تھی۔ جس میں چار لڑکیاں تھیں۔ تمام لوگ بہت محنت کرتے تھے۔ 7 کا ٹارگٹ تھا اور ہم 20، 20 افراد کا ڈیٹا دیتے تھے۔ مگر ارمغان بونس دینے میں کنجوسی کرتا تھا۔ جب موڈ اچھا ہوتا تھا تو وہ ہمیں پیسے فراہم کردیا کرتا تھا۔ لڑکیاں ہوں یا لڑکے، دونوں سے سے بدتمیزی اور گالیاں دیتا تھا۔ مگر سب خوش تھے کہ پیسہ جو اچھا ملتا تھا اور یہ بات ارمغان سمجھتا تھا۔ جن لوگوں کے ہم نے بینک تفصیلات لے رکھی تھیں، ان کا آگے کیا ہوتا تھا یہ ہمیں نہیں معلوم ہوسکا۔ کیونکہ آگے کا کام صرف ارمغان جانتا تھا۔ یا پھر اس کے قریبی ساتھی عمیر جو ارمغان باس کے بعد تھا‘‘۔
ملازم نے مزید بتایا کہ ’’ارمغان کے گھر پر لوگ بہت کم دکھتے تھے۔ باقی سیکیورٹی گارڈز کی ایک فوج ہوا کرتی تھی۔ ہر طرف اس کے گارڈز ہی دکھائی دیتے اور مہنگی ترین گاڑیاں۔ مجھے تعداد کا تو علم نہیں، مگر بہت ساری گاڑیاں میں نے ارمغان کے گھر پر دیکھیں اور جب تک رہا تو گاڑیاں بڑھتی ہی رہیں۔ کم نہیں ہوئیں۔ یہ گاڑیاں عام نہیں تھیں۔ فورڈ، او ڈی و دیگر گاڑیاں تھیں اور بڑی تعداد میں تھیں۔
میں ارمغان کے والد کامران کو دیکھتا رہتا تھا کہ وہ کبھی آتے تھے۔ ارمغان سے بات چیت کرتے اور چلے جاتے تھے۔ وہ اکثر ارمغان کو کراچی سے باہر شہر میں کاروبار منتقل کرنے کا مشورہ دیتے رہے۔ اور جب مصطفی کا قتل ہوا تو ارمغان کے والد کراچی میں نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسکردو یا چھانگا مانگا میں آفس کھلے اور اسی وجہ سے وہ ان شہروں میں جگہ تلاش کرنے نکلے ہوئے تھے۔ گھر پر ان کی والدہ کو نہیں دیکھا تھا۔ مگر ارمغان کی بہن کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ چھوڑ کر چلی گئی ہے۔
مجھ سے پہلے جو لوگ آفس میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ارمغان کی بہن سے بہت لڑائی ہوتی تھی۔ اسی گھر میں جہاں کال سینٹر ہے، وہاں ایک دن گارڈ کو ارمغان نے گولی مار کر زخمی کردیا تھا۔ جس کے بعد اس کی بہن نے وہ گھر چھوڑ دیا تھا۔ پھر کہاں گئی یہ نہیں پتا چلا۔ لوگ کہتے تھے کہ شاید گارڈ کا ارمغان کی بہن سے کوئی چکر چل رہا تھا۔ مگر یہ باتیں ان کولیگز نے بتائیں جو مجھ سے پہلے ارمغان کے پاس کام کرتے تھے‘‘۔
اس ملازم کے بقول ’’انجیلا اور اولیویا نامی خاتون ایک ہی ہیں۔ یہ وہ تمام نام ہیں جو زوما اپنی شناخت کیلئے رکھتی تھیں اور ہماری کولیگ تھی۔ اس کے ساتھ ارمغان نفسیاتی رویہ اختیار رکھتا تھا۔ ارمغان کے دوست شام کے بعد اس سے ملنے آیا کرتے تھے۔ میں نے ٹی وی ایکٹر ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کو دیکھا اور مصطفی عامر کو بھی دیکھا۔ باقی اور بھی دوست اس سے ملنے آتے تھے اور کھانا وغیرہ کھاتے ہلڑ بازیاں کرتے۔ اکثر فائرنگ بھی کرتے تھے۔
ارمغان کے گھر پر جتنی گاڑیاں موجود تھیں، اس سے زیادہ وہاں ارمغان نے اسلحہ رکھا ہوا تھا، وہ بھی جدید۔ میں نے اس کے ہاتھ میں جب بھی دیکھا تو کوئی نیا اسلحہ ہی ہوتا تھا، وہ بھی بہت خوبصورت سا۔ مصطفی عامر جب آتا تھا تو اس کے ہاتھ میں نارمل سے بیگ ہوتے تھے۔ اکثر وہ بیگ ہمارے سامنے کھلے بھی ہیں۔ ساحر حسن، ارمغان اور مصطفی عامر بیگ میں موجود چیز کو ویڈ ہی کہتے تھے اور جہاں تک میرے علم میں ہے وہ ویڈ ہی ہوتی تھی۔ مصطفی عامر کو میں نے 6 تو کبھی 7 بیگ لاتے دیکھا۔ یہ بیگ کم سے کم آدھا کلو کے برابر ہوتے تھے۔ ارمغان آفس میں جب بھی ہوتا تو وہ ویڈ ہی پی رہا ہوتا تھا۔ ہر وقت ویڈ کے نشے میں رہتا تھا۔ ایک گلاس پانی پینے کے بعد بھی اسے ویڈ چاہیے ہوتی تھی۔ ارمغان کے آفس میں ہر جگہ ویڈ کی ہی مہک ہوتی تھی‘‘۔
’’امت‘‘ کو اہم ذرائع نے بتایا کہ کال سینٹر اور کرپٹو کرنسی کے معاملے پر ایف آئی اے کی جانب سے ملزم ارمغان کے پاس ملازمت کرنے والے80 ملازمین کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔ ان ملازمین میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔ چند ملازمین کا ایف آئی اے میں انٹرویو بھی ہوا اور مزید ملازمین کا انٹرویو کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملزم ارمغان اس مذکورہ کاروبار کا اکیلا مالک نہیں۔ بلکہ ایک مہرا یا فرنٹ مین تھا۔ اس کاروبار کے پیچھے کچھ نامعلوم طاقتیں ہیں۔ ان طاقتوں کا نام تاحال سامنے نہیں آیا۔ شاید اداروں کو بھی اجازت نہیں کہ ان کا نام منظر پر آئے۔