محمد قاسم :
پشاور سمیت خیبرپختون میں 5 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کے اثاثوں کی رپورٹ مرتب کرلی گئی۔ غیر قانونی مہاجرین، سٹیزن کارڈ ہولڈرز سمیت رجسٹرڈ افراد کی الگ الگ رپورٹس بنائی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افغانوں کے پاس موٹر سائیکل اور گاڑیاں ہیں۔ تین لاکھ سے زائد افغانیوں نے پشاور میں ذاتی گھر لے رکھے ہیں۔
بیشتر کے قریبی رشتہ دار بیرون ممالک میں ہیں۔ جبکہ رجسٹرڈ مہاجرین کے دیگر اثاثوں کی تفصیلات بھی مرتب کی جارہی ہے۔ اسی طرح پاکستانی شہریوں سے شادیاں کرنے والے مہاجرین کی تفصیلات بھی مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ادھر ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ پشاور کے افغان کالونی، زرگرآباد، بورڈ، ابدرہ اور کارخانو سمیت دیگر علاقوں سے افغان مہاجرین نے اپنی پراپرٹی فروخت کرنا شروع کر دی ہے۔ تاکہ جمع پونجی اکٹھی کرکے افغانستان واپس جاکے کوئی کاروبار شروع کر سکیں۔
اس حوالے سے پشاور کے ایک معروف پراپرٹی ڈیلر ملک سلمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جس دن سے حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کو واپس جانے (31 مارچ 2025ئ) کی ڈیڈ لائن دی ہے، اس دن کے بعد اس سے درجنوں افغانوں نے اپنے اثاثے فروخت کرنے کیلئے رابطے کیے ہیں۔ ان کی پراپرٹی میں گھر، زمینوں سمیت کاروباری مقامات پر دکانیں شامل ہیں۔ تاہم وہ اپنی پراپرٹی کی جو قیمت وہ مانگ رہے ہیں، وہ ان کو ملنا مشکل ہے۔ کیونکہ پراپرٹی کا کاروبار کورونا وبا کے بعد متاثر ہوا ہے اور لوگوں نے اپنا سرمایہ پراپرٹی کے بجائے اب دیگر کاروبار میں لگا رکھا ہے یا بینکوں میں پیسے رکھے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر افراد ٹرانسپورٹ کا بزنس کر رہے ہیں۔ اسی لئے پراپرٹی میں وہ لطف نہیں رہا جو پہلے تھا۔
ان کے مطابق کئی افغان باشندے ان کی طرف سے دیئے گئے ریٹ پر راضی ہو گئے ہیں۔ تاہم متعدد افغان مہاجرین نے دوسرے پراپرٹی ڈیلرز سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ لیکن انہیں معلوم ہے کہ جو ریٹ ایک بار ایک پراپرٹی ڈیلر کی جانب سے مقرر کر دیا جائے، اس سے زیادہ دوسرے ڈیلر نہیں دیتے کہ اس سے کاروبار پر منفی اثر پڑتا ہے۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ بیشتر کاروباری افغان باشندوں نے پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں ایسی پراپرٹی اور گھر و دکانیں بھی خریدی ہیں جن کی قیمت 50 لاکھ تھی۔ تاہم انہوں نے اس کی دو گنا قیمت ادا کی اور اب ان کو اس پراپرٹی کے 50 لاکھ بھی نہیں مل رہے۔ جس پر وہ پریشانی سے دوچار ہیں۔ دوسری جانب پشاور کے مضافاتی علاقوں میں بسنے والے افغان مہاجرین نے اپنی لاکھوں کروڑوں کی بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کو اونے پونے داموں فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
پشاور سے متصل ضلع نوشہرہ کے نواحی علاقے اکبر پورہ میں ایک افغان مہاجر نے اپنی تین بھینسیں صرف10 لاکھ روپے میں فروخت کی ہیں۔ حالانکہ ایک بھینس کی قیمت 6 لاکھ روپے ہے۔ تاہم اتنی جلد گاہک ملنا مشکل تھا اور واپس جانا ضروری تھا۔ اس لئے اس نے تینوں بھینسوں کو فروخت کر دیا۔ جبکہ پشاور کے مضافاتی علاقوں بڈھ بیر، پشتہ خرہ، متنی سمیت قبائلی اضلاع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق گھروں میں پالے جانے والے جانور جس میں بھیڑ، بکریاں وغیرہ شامل ہیں اور ہر بکرے اور دنبے کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ بتائی جاتی ہے، وہ پچاس پچاس ہزار روپے میں فروخت کیے جارہے ہیں، جس پر بیوپاریوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ جنہوں نے عیدالاضحی کیلئے ابھی سے سستے داموں جانور افغانوں سے خریدنا شروع کر دیے ہیں۔ جس میں پولٹری کے کاروبار سے وابستہ افراد نے مرغیاں بھی خریدی ہیں اور بڑے پیمانے پر بہت زیادہ نفع کما رہے ہیں۔ ساتھ ہی پشاور کے متعدد تجارتی مراکز میں بیشتر دکانیں خالی ہو گئی ہیں جن پر کرایہ کیلئے خالی ہے کہ پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں۔ خاص کر پشاور کے کاروباری مراکز میں افغانوں نے دکانیں مالکان کے حوالے کر دی ہیں اور جو دکانیں کرائے پر لی گئی تھیں،
ان کے بقایا جات ادا کرنے کے بعد واپس افغانستان جانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ پشاور کے بیشتر مقامات پر افغانوں کے تندور اور ہوٹلز بھی بند ہو رہے ہیں۔ جس میں پختہ چائے فروشوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اب ہوٹل یا تو دوسرے چائے کے کاروبار سے وابستہ افراد پر فروخت کر رہے ہیں یا دکانیں بند کرکے سامان فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔