ندیم بلوچ :
اسرائیل غزہ کو خالی کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے غزہ میں صحت کا نظام دم توڑ چکا ہے۔ رفح میں پندرہ طبی ورکرز کی شہادت کے بعد صہیونی فوج نے پیرا میڈیکل ٹیموں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے۔ بمباری والے علاقوں میں ریسکیو ٹیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
رمضان المبارک کے دوسرے عشرے سے شروع ہونے والی بمباری سے اب تک 47 طبی ورکرز شہید ہوگئے۔ جس میں ڈاکٹرز، نرسیں، ایمبولینسوں کے ڈرائیورز اور دیگر رضاکار شامل ہیں۔ اس دوران 24 ایمبولینسوں کو ڈرون سے نشانہ بناکر تباہ کیا گیا۔ جس کے بعد بمباری والے علاقوں میں زخمی اور شہدا کی لاشیں گدھا گاڑیوں میں اسپتال منتقل کی جا رہی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ غزہ میں بچ جانے والے چند اسپتال زخمیوں کو سہولیات فراہم کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ ان اسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے وارڈز ایندھن اور دیگر سامان کی کمی سے غیر فعال ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے شدید زخمیوں کو بچانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔
ادھر صہیونی فوج کی جانب سے 15 فلسطینی طبی ورکرز کو قتل کرنے کے واقعے کی ویڈیو منظرعام پر آگئی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی جانب سے جاری ویڈیو، شہید ہونے والے ایک کارکن کے موبائل سے بنائی گئی ہے۔ جس کی لاش اور موبائل فون واقعے کے ایک ہفتے بعد اجتماعی قبر سے ملا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایمبولینسوں، فائر ٹرک اور اقوام متحدہ کی گاڑی پر ان کے نشانات واضح طور پر موجود ہیں اور ایمرجنسی سگنل والی لائٹیں بھی جل رہی ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر کے حکام کے مطابق انہوں نے اس ویڈیو کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ ویڈیو اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ دی ہے۔ یہ ویڈیو 23 مارچ کو رفح میں صبح کے وقت بنائی گئی تھی۔ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ امدادی اہلکار گاڑی سے یہ ویڈیو بنا رہا ہے اور امدادی کارکنوں کی گاڑیاں جب رکیں تو سامنے پہلے سے آئی ایک ایمبولینس موجود تھی، جو اسرائیلی حملے میں زخمی ہونے والوں کی امداد کیلئے آئی تھی۔ تاہم اس وقت وہ خود حملے کی زد میں تھی۔ اس دوران گولیاں چل رہی تھیں اور امدادی قافلے سے دو کارکن گاڑیوں سے اتر کر حملے کی زد میں آئی ایمبولینس کے قریب پہنچے تو فائرنگ کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور امدادی قافلے پر گولیوں کی بارش شروع ہوگئی۔
اس موقع پر ویڈیو میں اندھیرا ہوجاتا ہے۔ لیکن آواز ریکارڈ ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ وہاں اسرائیلی موجود ہیں۔ ویڈیو بنانے والے کارکن کو کلمہ شہادت پڑھتے بھی سنا جاسکتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’مجھے معلوم ہے میں مرنے والا ہوں۔ ماں، مجھے معاف کر دینا۔ لوگوں کی مدد کرنے کیلئے یہ وہ راستہ ہے جو میں نے چنا تھا‘‘۔ اس دوران پریشان حال امدادی کارکنوں کی آوازیں اور عبرانی زبان میں اسرائیلی فوجیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ویڈیو بنانے والے امدادی کارکن کی لاش بھی اجتماعی قبر سے ملی جس کے سر میں گولی ماری گئی تھی۔ نیویارک ٹائمز نے سیٹلائٹ تصاویر سے تجزیہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے واقعے کے دو دن بعد گاڑیوں کو بھی اجتماعی قبر میں چھپادیا۔ اقوام متحدہ میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈکریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) کے نمائندے نے واقعے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا بھر میں 2017ء کے بعد ریڈکراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے کارکنوں پر سب سے زیادہ مہلک حملہ تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی آزادانہ تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے۔ غزہ میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (او سی ایچ اے) کے مطابق تمام 15 افراد کی لاشیں رفح کے علاقے تل السلطان میں ریت میں دبی ملیں۔ برآمد شدہ 15 لاشوں میں سے 8 فلسطینی ہلال احمر، 6 فلسطین سول ڈیفنس اور ایک اقوام متحدہ کے کارکن کی ہے۔ حالیہ تنازعہ کے بعد سے فلسطینی ہلال احمر کے 30 رضا کار شہید ہوچکے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت میں کم از کم ایک ہزار 60 طبی کارکن ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos