کار واش سنٹرز ایس او پیز کے تحت کھلنے چاہئیں- پابندی درست نہیں- ورکر، فائل فوٹو
 کار واش سنٹرز ایس او پیز کے تحت کھلنے چاہئیں- پابندی درست نہیں- ورکر، فائل فوٹو

پنجاب میں نئے کار واش پوائنٹ بنانے پر پابندی

نواز طاہر :
پنجاب میں نئے کار واش پوائنٹ بنانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن محکمہ تحفظِ ماحولیات نے جاری کیا ہے۔ جس کے مطابق یہ پابندی پانی کی قلت کے پیشِ نظر پانی کا ضیاع روکنے کیلئے لگائی گئی ہے۔ اس سے پہلے عدالت عالیہ بھی اس قسم کی پابندیاں لگانے کے احکامات جاری کرتی رہی ہے اور پانی ضائع کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ جبکہ قانون کے تحت پانی کے غلط استعمال اور ضیاع پر پہلے ہی پابندی عائد ہے۔

یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے مختلف اوقات میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق معاملات پر سماعت کے دوران پانی کی کمی اور اس کے ضیاع کا نوٹس لیتے ہوئے متعدد اقدامات بھی اٹھائے۔ جن کے تحت گھروں کے باہر گاڑیاں دھونے پر پابندی لگانا بھی شامل ہے۔ چند روز پہلے بھی عدالت نے پانی کی قلت کا حوالہ دیتے ہوئے ضیاع روکنے کیلئے کریک ڈائون ناگزیر قرار دیا اور کہا تھا کہ اس ضمن میں ہنگامی صورتحال کا نفاذ کرنا ہوگا اور قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کیلئے سخت ہدایت بھی جاری کی گئیں کہ بڑی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو حتمی نوٹس دیا جائے اور اگر پھر بھی کوئی گاڑی دھوتا ہوا نظر آئے تو وہ سوسائٹی سیل کردی جائے۔ عدالت نے پینے کے پانی کی سپلائی کا نظام بھی ریگولیٹ کرنے کی ہدایت کی۔ جس کے مطابق ٹیوب ویل کے اوقات کار طے کیے جائیں۔ عدالتی احکامات کی روشنی میں محکمہ تحفظ ماحولیات نے ایک جانب نئے کار واش اسٹیشن بنانے پر پابندی لگائی ہے تو ساتھ ہی ضلعی انتظامیہ سے مل کر ان مراکز پر واٹر ری سائیکلنگ یونٹ نہ لگانے والوں کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ سخت فیصلہ صوبائی حکومت کو ایسے حالات میں کرنا پڑا ہے جب نہ صرف پہلے سے موجود کار واش سنٹرز پر واٹر ری سائیکلنگ پلانٹ لگانے میں سستی کی جارہی ہے بلکہ جگہ جگہ غیر قانونی اسٹیشن قائم کردیئے گئے ہیں۔ جن سے نہ صرف آلودگی پھیلتی ہے بلکہ زیر زمین پانی بھی کم ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق موٹر سائیکل سے گاڑی تک کی دھلائی پر بیس سے چالیس لیٹر تک پانی ضائع ہوتا ہے۔ جب نئے مرکز نہیں کھلیں گے تو ایک طریقے سے پانی کی بچت ہوگی اور پابندی ختم ہونے کے بعد آئندہ صرف ان سنٹرز کو اجازت دی جائے گی، جن کا انفرااسٹرکچر ایس او پیز کے تحت ہوگا۔

واضح رہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران صوبائی دارالحکومت میں ڈی سی لاہور کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنرز نے چیکنگ کے دوران متعدد کار واش سنٹر سیل کیے اور متعدد کو وارننگ دی۔ لیکن آبپاشی، واسا اور ماحولیات کے ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ پانی کا ضیاع روکنا واسا اور محکمہ آبپاشی کی ذمہ داری ہے تو محکمہ تحفظ ماحولیات یہ پابندی کس طرح لگارہا ہے۔ وہ صرف کار واش سنٹرز کے اجازت نامے کی درخواست پر معقول وجہ تحریر کر کے انکار کرسکتا ہے۔ کار واش سنٹرز پر واٹر ری سائیکلنگ تمام اداروں کا مشترکہ ایکشن ہے اور اس کے خلاف مہم جاری ہے۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ تحفظ ماحولیات میں حقیقی ماہرین کی تعداد کم اور منظور نظر افراد زیادہ متحرک ہیں۔ جبکہ یہ محکمہ صرف لاہور شہر میں آلودگی پھیلانے والی فیکٹریاں ہی کنٹرول نہیں کرسکا۔ جہاں تک پانی کا ضیاع روکنا مقصود ہے تو اس ضمن میں پہلے ہی ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوچکی ہے اور پنجاب واٹر ایکٹ مجریہ دو ہزار انیس میں پانی کے ضیاع کی روک تھام کے اقدامات اٹھائے گئے اور پانی کا ضیاع جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی سزا بھی ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔

دریں اثنا کار واش سنٹرز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی کا استعمال ماضی کی نسبت کم کیا جارہا ہے۔ بہت کم ایسے سنٹر رہ گئے ہیں جہاں واٹر ری سائیکلنگ سسٹم نہیں لگایا گیا۔ کیونکہ یہ زیادہ خرچے والا نظام نہیں۔ بلکہ خرچہ کم اور فائدہ زیادہ ہے۔ اس سے کئی طرح کی بچت ہوتی ہے۔ البتہ چھوٹی چھوٹی جگہوں پر مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے کھلے اسٹیشنز پر یہ سسٹم نہیں لگائے گئے۔ جبکہ یہ صرف مختلف اداروں کے اہلکاروں کی کمائی کا ذریعہ ہیں اور ان کے خلاف کارروائی بھی کم ہوتی ہے۔

ایک سروس اسٹیشن پر کام کرنے والے کارکن نے بتایا کہ جب سے واٹر ری سائیکلنگ سسٹم لگایا گیا ہے۔ انہیں پانی کے بلوں میں بھی بچت ہوئی ہے۔ اس کارکن کے بقول نئے مراکز معاشی سرگرمیوں کا ذریعہ ہیں۔ ان پر پابندی نہیں لگنا چاہیے بلکہ ایس او پیز کے تابع کھلنا چاہئیں۔ بصورتِ دیگر لوگ گھروں کے اندر گاڑیاں دھوئیں گے اور اس سے پانی کی ری سائیکلنگ بھی نہیں ہوگی، بلکہ وہ ضائع ہوجائے گا۔

اس کارکن کا کہنا تھا ’’میں نے کچھ عرصہ اسلام آباد کے ایک کار واش سنٹر پر کام کیا ہے۔ جہاں جدید انداز سے گاڑیاں صاف کی جاتی ہیں اور پانی کی کم ترین مقدار استعمال ہوتی ہے۔ ویسے بھی لوگ پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئے ہیں اور کیمیکل پر پانی سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ان مراکز کو کسی ضابطے کے تحت جدید بنانے کے اقدامات سے ہی پانی کا ضیاع رک سکتا ہے۔ جس طرح سولر پلیٹیں کم قیمت پر دی گئی ہیں، تحفظِ ماحولیات اور پانی کی بچت کیلئے گھروں میں بھی ری سائیکلنگ سسٹم لگانے کی سرکاری سطح پر سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔ کاروباری رکاوٹیں کھڑی کرنے سے فائدہ نہیں پہنچتا۔ الٹا کرپشن کے راستے کھلتے ہیں‘‘۔