عمران خان :
ایف آئی اے میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کی تبدیلی کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے نئے ٹاسک مل گئے۔ جبکہ ادارے میں بد عوانی کے خاتمے کے لئے سخت پالیسی پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار انسانی اسمگلنگ ، حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ہائی پروفائل کیسوں کے حوالے سے خصوصی ٹاسک لے کر آئے ہیں، جن میں انہیں مقتدر حلقوں کے ساتھ ہی وزیر داخلہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس ضمن میں تعارفی آن لائن میٹنگز میں ہی ان کی جانب سے تمام صوبائی زونل ڈائریکٹرز کو احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ شہریوں کو غیر قانونی طور پر اور جعلی دستاویزات پر بیرون ملک منتقل کرنے والے انسانی اسمگلر چونکہ ملکی بدنامی کاسبب بن رہے ہیں۔ اس لئے ان کی گرفتاریوں کے لئے ترجیحی بنیاد پر کارروائیاں کی جائیں۔ انہوں نے مزید ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں کرنا ایف آئی اے کی اولین ذمے داری میں شامل ہیں۔ اس لئے اس ضمن میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
مزید یہ کہ ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے ملک کے تمام ایئر پورٹس اور بارڈر چیک پوسٹ پر تعینات ایف آئی اے حکام کو سخت پیغام دینے کے لئے ’’اے کیٹگری‘‘ کے ڈیپورٹیز کو حراست میں لینے کے بعد ان سے مکمل طور پر تفتیش کرنے کی پالیسی نافذ کی جائے گی۔ ان کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں بیرون ملک بھجوانے والے انسانی اسمگلروں اور ایجنٹوں کے مکمل کوائف حاصل کرکے انہیں مقدمات میں نامزد کیا جائے گا۔ ایسے انسانی اسمگلروں کی گرفتاریوں کے لئے فوری کارروائی کرنے کے ساتھ ہی تمام مطلوب اور مفرور انسانی اسمگلروں کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کے لئے بھی کام کیا جائے گا۔
اس ضمن میں نئے ڈی جی رفعت مختار کی تعیناتی کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے نئے تعینات ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار راجہ اور نئے تعینات ڈائریکٹر جنرل نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی وقار الدین سید نے ملاقات کی۔ ملاقات میں غیر قانونی امیگریشن کے خلاف موثر حکمت عملی تیار کرنے اور سائبر کرائمز کی روک تھام کا ٹاسک سونپا گیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث مافیا کے خلاف ملک بھر میں موثر کریک ڈائون کریں۔ انسانی اسمگلنگ روکنے کے لئے چاروں صوبوں میں بلا امتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مکروہ دھندے میں ملوث لوگ معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی اسمگلرز کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ ایف آئی اے سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملک سے غیر قانونی سپیکٹرم اور منظم جرائم کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر سیکیورٹی ایک نیا چیلنج ہے۔ این سی سی آئی اے کی استعدادکار بڑھائی جائے گی اور افسروں کو تربیت کے لئے بیرون ملک بجھوایا جائے گا۔
نئے ڈی جی کے حوالے سے ترجمان ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ رفعت مختار کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان کے 24 ویں کامن سے ہے۔ اس سے قبل رفعت مختار نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس میں بطور انسپکٹر جنرل اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ دوران سروس انہوں نے مختلف اہم عہدوں پر کام کیا۔ رفعت مختار راجہ وزارت داخلہ میں بطور ایڈیشنل سیکریٹری بھی خدمات سرانجام دیں۔ اس کے علاوہ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ بھی تعینات رہے۔ ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار بطور آر پی او گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد اور بہاولپور بھی اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز آمد کے موقع پر افسران سے ان کا تعارف کروایا گیا اور ادارے کے بارے میں تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔
ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار نے کہا کہ ایمانداری، فرض شناسی اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی پبلک سروس ڈیلیوری کو بہتر بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے موثر حکمت عملی کو یقینی بنایا جائے اور بدعنوانی کے خلاف زیروٹالرنس پالیسی کے تحت اقدامات جاری رہیں گے۔ جبکہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی غفلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ایف آئی اے میں انسانی اسمگلنگ کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے کا کام انٹیلی جنس بیوروکو سونپ دیا گیا۔ ایئرپورٹ امیگریشن اور اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلوں میں تعیناتی انٹیلی جنس کلیئرنس سے مشروط کردی گئی۔ اب تک حساس ادارے کی رپورٹوں کی روشنی میں ملک بھر میں ڈیڑھ برس کے دوران 100 کے لگ بھگ افسران کو ایئر پورٹوں اور اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلوں میں تعیناتی کے لئے بلیک لسٹ قرار دیا جاچکا ہے جبکہ صرف کراچی میں ایسے 60 کے قریب اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق ایک جانب اس اقدام سے انسانی اسمگلنگ میں طویل عرصہ سے سہولت کار بننے الی کالی بھیڑوں کو اہم پوسٹوں سے دور رکھ کر بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن کی روک تھام میں مدد مل رہی ہے۔ تاہم دوسری جانب بعض حالات میں مناسب طریقہ کار وضح نہ ہونے کی وجہ سے یہ پالیسی امیگریشن کے روزمرہ امور کی بہتر ادائیگی میں مشکلات کا سبب بھی بننے لگی ہے۔ کیونکہ ہیڈ کوارٹر میں موجود بعض افسران کی جانب سے بعض اوقات اچھے کام والے افسران اور اہلکاروں کو بھی ذاتی رنجش ، عناد اور صرف سنی سنائی باتوں پر ایسی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک دوہرے یا تہرے کراس چیکنگ کے شفاف طریقہ کار کو نافذ کر نا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ دنوں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز سے پرائم منسٹر آفس کی ہدایات کے بعد ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایف آئی اے میں کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افسران اور اہلکارں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائیوں کے لئے پہلے کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں ہونے والی پیش رفت رپورٹ سے آگا ہ کیا جائے۔ کیونکہ اس پر وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے رپورٹ طلب کی گئی ہے کہ ایسے اہلکاروں اور افسران کے خلاف ان کے سرکل انچارجز ، زونل ڈائریکٹرز اور ڈی جی آفس کی جانب سے کیا اور کتنی کارروائیاں کی گئیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایس او پی بھی دی گئی ہے کہ کس گریڈ سے کتنے گریڈ تک کے اہلکاروں اور افسران کے خلاف کون سے افسر کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں، تاکہ اس پروسس کو جلد نمٹایا جاسکے۔