متحدہ کے دہشت گردوں نے طاہر پلازہ میں وکلا کو زندہ جلادیا تھا، فائل فوٹو
متحدہ کے دہشت گردوں نے طاہر پلازہ میں وکلا کو زندہ جلادیا تھا، فائل فوٹو

انصاف دلانے والے خود انصاف سے محروم

سید حسن شاہ :
شہریوں اور سائلین کو انصاف دلانے والے وکلا گزشتہ 17 برس سے خود انصاف کے منتظر ہیں۔ 9 اپریل 2008ء کو ہونے والے سانحہ طاہر پلازہ میں ملوث دہشت گردوں کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہ کیس اب بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ استغاثہ اور تفتیش کاروں کی جانب سے مقدمہ میں نامزد 3 متحدہ دہشت گردوں سعید بھرم، فیصل جاوید عرف ماما اور عمران عرف سعید کے خلاف ٹرائل مکمل نہیں کرایا جاسکا۔

پولیس اور تفتیشی حکام اتنے عرصے میں متحدہ کے مفرور سابق انچارج تنظیمی کمیٹی حماد صدیقی سمیت 12 دہشت گردوں کو گرفتار کرکے مرحومین کو انصاف دلانے میں ناکام ہیں۔ نامعلوم ملزمان نامزد ہونے اور کسی بھی ملزم کی گرفتاری نہ ہونے کے سبب اے کلاس کیا جانے والا تھانہ سٹی کورٹ میں درج مقدمہ بھی ری اوپن نہیں کرایا جاسکا۔ وکلا برادی کی جانب سے مرحومین کی یاد میں 9 اپریل کو سیاہ دن کے طور پر منایا گیا اور جنرل باڈی اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔

9 اپریل 2008ء کو سٹی کورٹ کے قریب واقع طاہر پلازہ میں کیمیکل چھڑک کر آگ لگادی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں جھلس کر 2 خواتین، وکیل سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سانحہ طاہر پلازہ کے دو مقدمات تھانہ سٹی کورٹ اور تھانہ رسالہ میں درج کیے گئے۔ تھانہ سٹی کورٹ میں درج مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ہونے کے باعث اے کلاس کردیا گیا تھا۔ اس مقدمہ کے تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی گئی کہ مقدمہ میں نامعلوم ملزمان کو شامل کیا گیا ہے۔ جس میں کوئی ایک ملزم بھی گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔ لہذا مقدمہ کو اے کلاس کردیا جائے۔

مذکورہ مقدمہ پولیس حکام کی جانب سے تاحال ری اوپن نہیں کیا جاسکا۔ سانحہ طاہر پلازہ کا دوسرا مقدمہ تھانہ رسالہ میں درج ہوا تھا۔ جو اب بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس کیس میں متحدہ کے دو دہشت گرد سعید بھرم اور عمران عرف سعید گرفتار، جبکہ فیصل جاوید عرف ماما ضمانت پر ہے۔ مقدمہ میں 12 متحدہ دہشت گردوں کو مفرور اور اشتہاری بھی قرار دیا گیا ہے۔ مفرور ملزمان میں انچارج تنظیمی کمیٹی حماد صدیقی، ایاز میجر، عاصم عرف گنجا، عباس عرف عباسی، سلیم عرف گولڈن، راجو، شہروز عرف بدبو، شہزاد قادری، واجد، رضوان عرف موٹا، نواب دھوبی اور مشیر نقوی شامل ہیں۔ مفرور ملزمان کے تاحیات وارنٹ گرفتاری جاری بھی کیے جاچکے ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق 12 مارچ 2021ء کو ملزمان فیصل جاوید عرف ماما ، سعید بھرم اور عمران عرف سعید پر ترمیمی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ جس کے بعد ملزمان کے خلاف ٹرائل شروع کیا گیا۔ اب بھی گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جارہے ہیں۔ تاہم تفتیشی حکام اور پراسیکیوشن کیلئے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرانا درد سر بن گیا ہے۔ گزشتہ کئی سماعتوں سے تفتیشی حکام کی جانب سے ایک بھی گواہ کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا جاسکا ہے۔ جبکہ بیشتر سماعتوں پر گواہوں کو عدالت میں پیش بھی نہیں کیا جاسکا۔ جس کی وجہ سے مقدمہ التوا کا شکار ہے۔ ابتدا میں پراسیکیوشن اور تفتیشی حکام کی جانب سے مقدمہ میں استغاثہ کی جانب سے وکلا، ایم ایل او، جوڈیشل مجسٹریٹ اور پولیس افسران سمیت 35 سے زائد گواہان کو نامزد کیا گیا تھا۔

اس مقدمہ کا ایک گواہ سردار خورشید احمد خان ایڈووکیٹ انتقال کرچکا ہے۔ جبکہ استغاثہ کی جانب سے 12 سے زائد گواہان پولیس افسران و اہلکاروں کے نام واپس بھی لئے جاچکے ہیں۔ جن میں ڈی ایس پی اظہر محمود، انسپکٹر زاہد حسین چشتی، انسپکٹر زاہد شاہ، انسپکٹر خالد جاوید، سب انسپکٹر محمد رفیق، سب انسپکٹر سید عابد، اے ایس آئی ظفر اقبال، ہیڈ کانسٹیبل سجاد حسین، ہیڈ کانسٹیبل ممتاز، ہیڈ کانسٹیبل محمد اسلم، کانسٹیبل حیات اللہ اور کانسٹیبل غلام فاروق شامل ہیں۔ متحدہ کے بدنام زمانہ ٹارگٹ کلر سعید بھرم سمیت 3 دہشت گردوں کے خلاف سانحہ طاہر پلازہ کیس میں مجموعی طور پر 18 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ بیانات ریکارڈ کرانے والوں میں وکلا، پولیس افسران و اہلکار سمیت دیگر شامل ہیں۔

گواہوں نے اپنے بیانات میں سعید بھرم سمیت دیگر ملزمان کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ مقدمہ میں سابق تفتیشی افسران سمیت 4 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونا باقی ہیں۔ مقدمہ بار بار التوا کا شکار ہونے کی وجہ سے گواہان بیانات ریکارڈ کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ گواہان کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد ملزمان کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔ اس کے بعد وکلائے طرفین کی جانب سے حتمی دلائل مکمل ہوں گے۔ اس کے بعد مقدمہ کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

سانحہ طاہر پلازہ میں جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں وکلا کی جانب سے ہر سال جنرل باڈی اجلاس منعقد کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی وکلا نے 9 اپریل ہاتھوں میں سیاہ پٹیاں باندھ کر سیاہ دن کے طور پر منایا اور جنرل باڈی اجلاس بھی منعقد کیا۔ وکلا کا کہنا تھا کہ 9 اپریل 2008ء کو طاہر پلازہ میں الطاف عباسی اور ان کے 4 کلائنٹ کو زندہ جلادیا گیا۔ جبکہ ایم اے جناح روڈ پر شہریار شیری ایڈووکیٹ کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ملیر بار ایسوسی ایشن پر حملہ کیا گیا اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس سانحہ کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ وکلا برادری 9 اپریل کو ہرسال سیاہ دن کے طور پرمناتی ہے۔