سابق سینیٹر کے اثاثوں و آمدنی کے علاوہ بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ بھی شامل تفتیش کرلی گئی، فائل فوٹو
سابق سینیٹر کے اثاثوں و آمدنی کے علاوہ بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ بھی شامل تفتیش کرلی گئی، فائل فوٹو

فرحت اللہ بابر کیخلاف کرپشن و منی لانڈرنگ تحقیقات تیز

عمران خان :

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں تیزی آگئی۔ فرحت اللہ بابر کے اثاثوں اور آمدنی کے علاوہ سینیٹر شپ کے دوران بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اہلیہ سمیت خاندان کے دیگر افرد کے ناموں پر موجود اثاثوں کی چھان بین بھی شروع کردی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے سابق سینیٹر کو پرائیویٹ شہری کی درخواست پر شروع کی جانے والی اس اچانک انکوائری میں سوال نامہ تھمادیا۔ واضح رہے کہ فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی کے سینئر ترین رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ سابق سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ پیپلز پارٹی پاکستان کے ہیومن رائٹس ونگ کے صدر ہیں۔

’’امت‘‘ کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل اسلام آباد کی جانب سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ اس تحقیقات میں اب تک فرحت اللہ خان بابر کو دو بار نوٹس ارسال کرکے ایف آئی اے آفس میں تفتیشی افسر کے سامنے پوچھ گچھ کیلئے طلب کیا جاچکا ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقات سے قبل ان کے خلاف ایف بی آر کے تحت اچانک کارروائی شروع کی گئی۔ انہیں 21 مارچ کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ جس میں ان کی آمدنی اور واجب الادا ٹیکس کے معاملات اٹھائے گئے تھے۔ ذرائع کے بقول اس کے فوری بعد ہی 23 مارچ کو راولپنڈی کے علاقے مورگاہ سے تعلق رکھنے والے ایک پرائیویٹ شخص نے ایف آئی اے حکام کو فرحت اللہ بابر کے حوالے سے ایک تحریری درخواست دی۔ جو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کو موصول ہونے کے بعد اس پر ویری فیکیشن کا عمل بھی جلد مکمل کرلیا گیا۔

بعد ازاں اس درخواست پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کے حکام کو باقاعدہ انکوائری کی اجازت دے دی گئی۔ ذرائع کے بقول اس معاملے پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد میں انکوائری نمبر108/2025 درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ ذرائع کے بقول مذکورہ تحریری شکایت میں ان کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اسی انکوائری میں بعد ازاں ان کو عید سے ایک روز قبل ایف آئی اے آفس طلب کیا گیا۔ بعد ازاں دوبارہ عید کے چند روز بعد طلب کیا گیا۔ پہلی بار ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد کی جانب سے 5 مارچ کو فرحت اللہ بابر کو نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ 28 مارچ کو ان کے سامنے پیش ہوں۔

’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق فرحت اللہ خان بابر سے کرپشن اور منی لاندرنگ کی تحقیقات میں بارہ نکات کے حوالے سے ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ جس میں ان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی تفصیلات، تمام بینک اکائونٹس کی تفصیلات، ان کے نام رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں کی تفصیلات، انکم ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات، ذرائع آمدنی کی تفصیلات، اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ناموں پر موجود جائیدادوں کی تفصیلات، سینیٹر شپ کے دوران حاصل ہونے والے تمام مالی فائدوں کی تفصیلات، سینیٹر شپ کے دوران ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ کی تفصیلات، عوامی فلاح و بہبود کے نام پر خرچ کیے گئے فنڈز کی تفصیلات، سینیٹ کی جانب سے دی گئی تمام مراعات کی تفصیلات اور دیگرمعلومات شامل ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول ان تحقیقات میں گزشتہ روز ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری سے متعلق 18 سے 20 سوالات پر مبنی سوال نامہ حوالے کردیا۔ ذرائع نے کہا کہ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنے وکیل کے مشورے کے بعد جوابات جمع کرانے کا کہا ہے۔ سابق سینٹر فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے کو اپنے خلاف جمع ہونے والی درخواست کی کاپی اور شکایت کندہ سے متعلق تفصیل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کیلئے انہیں انتظار کرنے کا کہا گیا ہے۔

دوسری جانب سینیٹر فرحت اللہ بابر اور پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری کا موقف بھی اخبارات میں سامنے آچکا ہے۔ جس کے مطابق وہ 2013ء سے کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے۔ وہ صرف صدر آصف علی زرداری کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے تھے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے کے نوٹس جواب دینے کیلئے قانونی راستہ اختیار کرنے کا عندیہ بھی دے رکھا ہے۔ سیکریٹری اطلاعات پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ بزرگ رہنما و سابق سینیٹر جو ایک دہائی سے کسی سرکاری عہدے پر بھی نہیں، ان کے خلاف ایف آئی اے کی انکوائری قابل افسوس ہے۔ ایف آئی اے کی انکوائری بے وقعت ہے اور اس کے پیچھے چھپے مقاصد مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔

ادھر ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات بلاامتیاز اور شفاف انداز میں کی جا رہی ہیں اور تمام قواعد اور قوانین کو پورا کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر جلد ہی ایف آئی اے اینٹی کرپشن سر کل اسلام آباد کے حکام اپنی سی ایف آر تیار کرکے مقدمہ کے اندراج کے حوالے سے اپنی سفارشات منظوری کیلئے اعلیٰ حکام کو ارسال کردیں گے۔ جس کا فیصلہ سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔