فائل فوٹو
فائل فوٹو

میئر کراچی اور گورنر کی لفظی جنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا

محمد نعمان
گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب میں لفظوں کی جنگ اب شدت اختیار کرچکی ہے۔ 100 ارب روپے کی گرانٹ کے لیے شروع ہونے والی لڑائی اب بلدیاتی محکموں تک پہنچ گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے حمایت یافتہ بلدیاتی افسران کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹاؤنز اور کے ایم سی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں اور ان کی لاگت کی تفصیل فوری بہادرآباد آفس میں جمع کروائیں۔ ساتھ ساتھ ایم کیو ایم سوشل میڈیا ٹیم کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ شہر کی ابتر صورتحال پر تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے میئر کراچی کو تنقید کا مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بھی متحدہ قومی موومنٹ کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پی پی ٹاؤن چیئرمین اور افسران نے مصطفیٰ کمال اور وسیم اختر دور میں ہونے والی بھرتیوں کی فہرست طلب کرلی ہے، جس کے بعد مذکورہ افسران و ملازمین کے خلاف کارروائیاں کی جائے گی۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کو اگر شہر کی ترقی کے لیے کوئی مدد چاہے تو وہ وفاق سے بات کرسکتے ہیں۔ اس بیان پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے گورنر سندھ کو ایک لیٹر جاری کیا، جس میں 100ارب روپے کے پیکیچ کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ مذکورہ خط کے بعد گورنر سندھ کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، جس پر میئر کراچی نے گورنر سندھ پر تنقید کرتے ہوئے کہ کہا کہ وہ پہلے 100ارب روپے لائیں، پھر بات ہوگی۔

اس کے علاوہ میئر کراچی کی متعدد پریس کانفرنسوں میں گورنر سندھ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ اب تک انہیں کسی قسم کے پیسے نہیں ملے ہیں۔ جب کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے میئر کراچی کا مراسلہ ملنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھا، جس میں کراچی کے ترقیاتی کاموں کا ذکر کیا گیا۔ تاہم مذکورہ خط کے بعد بھی گورنر سندھ اور میئر کراچی پریس کانفرنسوں میں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ دو روز قبل متحدہ کے فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ مرتضیٰ وہاب مینڈیٹ چوری کرکے میئر بنے ہیں۔ فاروق ستار نے الزام عائد کیا کہ مرتضیٰ وہاب کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا کریڈیٹ لیتے ہیں، جس پر کنٹونمنٹ بورڈز نے بھی اعتراض اٹھائے ہیں۔

اس کے بعد میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ پر الزام عائد کرتے ہوئے متحدہ کو کہا کہ یہ 12 مئی 2007ء کا کراچی نہیں ہے۔ مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی کو جواب دینے کے لیے بہادرآباد کے مرکز پر اہم میٹنگ رکھی تھی، جس میں متحدہ کے بلدیاتی افسران نے شرکت کی تھی۔ اس ضمن میں متحدہ کی جانب سے ایک سرکلر بھی جاری کیا گیا تھا، جس میں متحدہ نے ہدایت جاری کی کہ وہ اپنے ٹاؤنز، خصوصاً جو پیپلز پارٹی کے ماتحت ہیں، ان علاقوں میں مکمل سروے کرکے دیکھا جائے کہ کہاں کہاں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس کہاں کی خراب ہیں۔ پارکوں سمیت کھیلوں کے میدانوں کی موجودہ صورتحال کی تصاویر اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر شیئر کریں۔

ذرائع نے بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی نے بھی بھرپور تیاری کرلی ہے۔ کے ایم سی میں جعلی ملازمین اور جعلی پرموشن سے متعلق فہرست طلب کرلی ہے۔ اسی طرح پی پی ٹاؤنز میں بھی ہدایت دی گئی ہیں کہ وہ مصطفیٰ کمال اور وسیم اختر دور میں بھرتی ہونے والے ملازمین کی فہرست تیار کریں۔ ساتھ ساتھ ان ملازمین و افسران کی دستاویزات کی مکمل چھان بین کی جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کی لڑائی کے بعد متحدہ کے بیشتر حمایت یافتہ افسران نے پی پی ٹائون چیئرمین اور افسران سے رابطہ کیا ہے کہ ان کا اس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ متحدہ کو کسی قسم کی کوئی معلومات فراہم کریں گے۔ واضح رہے کہ متحدہ کو خاموش کرانے کے لیے محکمہ میونسپل سروسز ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، وٹنریری ، میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز، اینٹی انکروچمنٹ ، انٹرپرائس اینڈ انویسمنٹ پرموشن ، ٹرمنل ، پروجیکٹ اورنگی ، سٹی انسٹیویٹ آف امیج منجمنٹ، میڈیا منجمنٹ، کنٹریکٹ منجمنٹ ، میونسپل پبلک ہیلتھ اور پرنٹنگ پریس سمیت دیگر محکموں میں اس سے قبل بھی تحقیقات کی جاچکی ہیں، جس پر متحدہ کے حمایت یافتہ افسران کو نوٹسز جاری ہوئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔