محمد قاسم :
افغان باشندوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین اور ان کے بچوں کیلئے افغانستان واپسی کے فیصلے نے نئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ بیشتر بچوں اور خواتین نے افغان شوہروں کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کے مختلف علاقوں میں مقامی خواتین نے افغان باشندوں کے ساتھ شادیاں کر رکھی ہیں۔ تاہم افغان باشندوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہونے کی وجہ سے پشاور سمیت صوبہ بھر میں اس قسم کے لوگوں کو دوہرے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بعض علاقوں میں ذرائع کے مطابق خواتین نے اپنے بچوں کو بھی افغانستان بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ اوریجن کارڈز ملنے کی صورت میں یہ خاندان ٹوٹنے سے بچ جائیں گے۔ لیکن اس وقت صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ ذرائع کے بقول ان افغان باشندوں کو کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں، جنہوں نے اپنی خواتین کے رشتے پاکستانیوں کو دیئے ہیں اور جن کے بچے جوان بھی ہیں اور پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم وہ افغان باشندے جن کے ساتھ پاکستانی شہریوں نے کاروبار میں پارٹنر شپ قائم کی، انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں خواتین نے انکار کیا۔ جس کے بعد ان کے والدین اور خاندان والوں نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں حالات ایسے نہیں، جس میں خواتین کو وہ آزاد ماحول میسر ہو، جو پاکستان میں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں خواتین ملازمت سمیت ہر شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ جبکہ گزشتہ دنوں افغانستان سے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ خواتین کیلئے گھروں کی کھڑکیاں بھی بند کر دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ خواتین پر تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں بھی پابندیاں ہیں۔ جس پر پاکستانی خواتین شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ اس حال میں افغانستان چلی جاتی ہیں تو جو سہولیات ان کو پاکستان میں میسر ہیں اور ان کا سارا خاندان پاکستان میں موجود ہے، افغانستان میں ان کیلئے زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
جبکہ ان کے بچوں کا تعلیمی سلسلہ بھی رک جائے گا۔ کیونکہ بعض خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچے اس وقت میٹرک کے امتحانات دے رہے ہیں اور میٹرک امتحانات کے بعد دیگر انٹر، گریجویشن سمیت ماسٹرز کے امتحانات کیلئے بھی بچے تیاریاں کر رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فی الحال خاندانوں کو منانے کیلئے جرگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تاہم کسی بھی حتمی فیصلے پر ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا اور خاندانوں میں دوریاں بڑھنے کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ جرگہ سسٹم چونکہ افغانستان سمیت پاکستان کے قبائلی اضلاع اور پشاور کے مضافاتی علاقوں میں انتہائی مقبول ہے۔ اسی لئے افغانوں نے اس کا سہارا لیا ہے اور جرگے کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف علاقوں میں جرگے ہوئے ہیں۔ تاہم اس کی تفصیلات اور اس کے نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق پشاور سمیت صوبہ بھر میں افغان مہاجرین کے لگ بھگ 12 ہزار سے زائد کاروباری مراکز بند ہو گئے ہیں۔ 2 ہزار کاروباری مراکز تین دنوں کے دوران بند ہوئے ہیں۔ مہاجرین کی واپسی کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے اورکاروباری مراکز بند ہونے کے باعث بیشتر مارکیٹوں کے باہر ’دکانیں کرائے کیلئے خالی ہیں‘ کے بینرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ مختلف افغان مراکز سنسان ہو رہے ہیں۔ پشاور کے علاقہ بورڈ، افغان کالونی، ناصر باغ اور کارخانو سمیت مختلف مقامات پر افغان مہاجرین نے اپنا کاروبار بند کرنا شروع کر دیا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے وطن واپسی کیلئے کیمپوں کا رخ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے آئی جی پی ذوالفقار حمید نے کہا ہے کہ غیر قانونی مقیم افراد کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے۔ ہر ضلع میں غیر قانونی مقیم افراد کے انخلا سے متعلق ٹیموں کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے۔ جنہوں نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پشاورکے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی انتظامیہ متحرک ہے۔ واپس جانے والے افغان باشندوں کو تمام تر سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ جبکہ انتظامیہ کے علاوہ پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کے شہری بھی افغانوں کے ساتھ مکمل تعاون اور مالی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ افغانوں کیلئے ٹھنڈے مشروبات سمیت بچوں کو خشک دودھ اور بسکٹ وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ افغانستان جانے والے مہاجرین کی گاڑیوں میں اشیائے خورونوش بھی عوام پہنچا رہے ہیں۔ تاکہ ان کو کسی بھی قسم کی مشکلات اور مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos