بلوچستان اور خیبرپختون کا رخ کرتے کتراتے ہیں، فائل فوٹو
 بلوچستان اور خیبرپختون کا رخ کرتے کتراتے ہیں، فائل فوٹو

کراچی میں سرکس کی مقبولیت تاحال برقرار

ثاقبال اعوان :

کراچی میں قومی یا دیگر اہم دنوں میں لگنے والی سرکس آج بھی مقبول ہیں۔ چند دن کے لئے لگنے والی سرکس سے شہری خوب انجوائے کرتے ہیں۔ سرکس والوں میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں انہیں زیادہ روزگار ملتا ہے۔ تاہم خراب حالات کی وجہ سے بلوچستان اور خیبرپختون خواہ کا رخ نہیں کرتے۔ کراچی کی کچی آبادیوں میں لگنے والی سرکس سے علاقے والوں کو سستی تفریح میسر آتی ہے۔ مختلف طریقوں سے علاقے کی پولیس سرکس انتظامیہ سے بھتہ وصول کرتی ہے۔ سرکس دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں تفریحی جگہیں بہت کم ہیں۔ جبکہ تفریحی مقامات دور ہونے سے ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھاری پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ کسی زمانے میں شہر میں سرکس کے لئے شہری انتظار کرتے تھے۔ نمائش چورنگی، ایم اے جناح روڈ اس حوالے سے مشہور ہے کہ سال بھر میدان میں سرکس لگتی تھی۔ ایک سرکس کا سیٹ اپ ختم کرتے تھے۔ تو دوسرا سیٹ اپ آجاتا تھا۔ اب عرصہ دراز سے یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت شہر کے سات اضلاع میں لگ بھگ 10 سے زائد سرکس لگتے ہیں۔ دونوں عیدوں پر، 23 مارچ، 14 اگست اور کرسمس پر سرکس لگتی ہیں۔ کالا پل پر سرکس، مقامی لوگوں کا ہے۔ جس کے آگنائزر محمد متین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ 15 سال سے کراچی میں مختلف میدانوں میں سرکس لگاتے ہیں۔ سرکس کے مشہور ایونٹ ’’موت کا کنواں‘‘ میں بائیک یا کار چلانے والے پنجاب سے آتے ہیں۔ اسی طرح سرکس میں کرتب دکھانے والے بھی کراچی کے نہیں ہوتے۔ بڑے جھولے والے اور شیر کے ساتھ کرتب دکھانے والے بھی پنجاب سے آتے ہیں۔ یہ کام مشکل ہوتا ہے کہ اس عید پر اجازت نہ ملنے پر عید کی تین چھٹیاں ضائع ہوئی ہیں۔

اسی طرح تنخواہ، بلائے گئے افراد کو ادا کرنی پڑتی ہے اور ان کی رہائش کھانے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سرکس کا سیٹ اپ چھوٹا ہے۔ البتہ پنجاب سے مختلف ایرانی سرکس والوں کا سیٹ اپ بڑا ہوتا ہے۔ 50 ٹرک سامان ہوتا ہے۔ 500 سے زائد ملازمین ہوتے ہیں۔ لگ بھگ ایک مہینہ کی اجازت ہوتی ہے کہ سیٹ اپ لگانے میں ہفتہ لگ جاتا ہے۔ یہاں پر آنے والے شہریوں کا کہنا ہوتا ہے کہ سرکس میں جھولے، جانور، کرتب، موت کا کنواں، کھانے پینے کے اسٹال، جوکر کی حرکتیں، بھوت بنگلہ، چڑیا گھر والوں کی طرح ممتاز بیگم کی ڈمی بناکر پیش کرتے ہیں۔ اب کرایے زیادہ ادا نہیں کرنے پڑتے ہیں کہ چڑیا گھر یہاں کے لوگوں کے لئے دور ہے اور جانور بھی جن کو شہری زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ کم ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے کرایے بھی زیادہ ہیں۔ اب لوگ ادھر آکر تفریح کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں بڑا سیٹ اپ 14 اگست کو لگانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے انتظامیہ اجازت دے، تب ہی ممکن ہے کہ پہلے سے پنجاب کے لوگوں سے رابطے کرکے کنٹریکٹ کرنا ہوتا ہے۔

سرکس کے لوگ پنجاب، سندھ میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں کہ وہاں مزارات کے عرس کے میلوں، مذہبی، موسمی دنوں کے آغاز پر بھی میلوں میں سرکس لگاتے ہیں۔ سرکس میں آنے والوں میں زیادہ تر متوسط یا غریب طبقہ شامل ہوتا ہے کہ جو تفریح کے لئے زیادہ اخراجات نہیں اٹھا سکتا۔ شہری بڑے چھوٹے جھولے، بچے اپنے جھولے یا دیگر تفریح کی چیزوں سے انجوائے کرتے ہیں۔ اب جس آبادی میں سرکس لگتا ہے، وہاں رہنے والے غیر مقامی افراد زیادہ تفریح کرنے آتے ہیں۔ پنجاب میں چونکہ سرکس کا سلسلہ زیادہ ہے، وہاں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے زیادہ آرہے تھے۔

مقامی سطح پر لگنے والی سرکس سے جہاں لوگوں کو سستی تفریح علاقے میں مل جاتی ہے۔ وہیں مقامی نوجوان بھی چند روز کے لئے روزگار حاصل کرلیتے ہیں۔ آج کل گرمی کی شدت زیادہ ہے کہ اندھیرا ہونے کے بعد جب سرکس کی لائٹیں جلائی جاتی ہیں اور رات 8 بجے سے بارہ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہاں آنے والے شہری برگر، چنا چاٹ، بریانی، سموسے رول، مشروبات کولڈ ڈرنک سمیت دیگر کھانے پینے کی اشیا خریدتے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی کے لئے آئے ہوئے مقامی تھانوں کے اہلکار بھی انجوائے کرتے ہیں کہ ان کے لئے بھی مختلف بہانوں سے بھتہ خوری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔