امت رپورٹ
دوسری اور آخری قسط
بھارت میں وقف املاک کے ترمیمی قانون کے ذریعے ہزاروں مساجد کو سرکاری تحویل میں لینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت پورے بھارت میں وقف بورڈ سے جڑی مساجد کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ہے۔ مسلم دشمن مودی سرکار کی جانب سے متعارف کردہ وقف ترامیم کے ذریعے تکنیکی طور پر ان میں سے نصف سے زائد مساجد کو وقف سے الگ کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
چودہ ترامیم میں سے ایک شق کے تحت ’’وقف بائی یوزر‘‘ یعنی ’’صارف کے ذریعے وقف‘‘ کی شق کو ختم کردیا گیا۔ اس شق کے تحت پہلے کوئی بھی اپنی جائیداد کو زبانی طور پر وقف کرسکتا تھا۔ اب کسی بھی زمین یا جائیداد کو ’’وقف املاک‘‘ تسلیم کرانے کے لئے باضابطہ رجسٹریشن اور دستاویزات درکار ہوں گی۔ بھارت میں درجنوں ایسی صدیوں پرانی مساجد ہیں، جو سلاطین، تغلق یا مغلیہ دور میں وقف کی گئی تھیں۔ جبکہ دوردراز کے پسماندہ دیہات میں اس نوعیت کی مساجد کی تعداد ہزاروں میں ہے، جنہیں زبانی طور پر وقف کیا گیا یا وہ جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ اب نئے وقف ترمیمی ایکٹ کے لاگو ہونے کے بعد کوئی بھی انتہا پسند ہندو کسی بھی قدیم یا دیہات میں واقع مسجد، درگاہ یا مسلمانوں کے قبرستان کی ملکیت کو چیلنج کرسکتا ہے، جس کا فیصلہ کرنے کے لئے اصل دستاویزات مانگی جائیں گی۔ دستاویزات فراہم نہ کئے جانے کی صورت میں اس وقف اراضی کو سرکاری یا نجی ملکیت میں لیا جاسکتا ہے۔
نئے ترمیمی قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے والوں نے بھی اس خطرے کو بھانپ لیا ہے ۔ اسی لئے اپنی درخواستوں میں انہوں نے یہ اہم نقطہ اٹھایا ہے کہ ’’وقف بائی یوزر‘‘ یا ’’صارف کے ذریعے وقف‘‘ کو ختم کردینے سے بھارت میں وقف کی ہزاروں عمارتوں اور جائیدادوں کے خلاف درخواستوں کا سیلاب آجائے گا کیونکہ صدیوں پہلے وقف کی گئی بیشتر جائیدادوں بشمول مساجد، قبرستانوں اور درگاہوں کے پاس رسمی قانونی دستاویزات نہیں۔ مسلمانوں نے انہیں زبانی وقف کیا تھا اور وہ صدیوں سے وقف جائیدادوں کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ واضح رہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں دودرجن سے زائد درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ ان درخواستوں کی سماعت کا آغاز آج سولہ اپریل کو متوقع ہے۔
نئی ترامیم میں یہ شق بھی شامل ہے کہ جب تک کسی نے وقف کو زمین عطیہ نہ کی ہو۔ اگر اس پر مسجد بھی بنائی جائے تو وہ وقف کی نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے قانون میں یہ تھا کہ اگر کسی زمین پر مسجد ہو یا اسے اسلامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو وہ خود بخود وقف کی ملکیت بن جاتی تھی۔
بھارت کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سنی مسلمانوں کی وقف املاک 9 لاکھ چالیس ہزار ایکڑ پر محیط ہیں۔ جبکہ وقف کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کی تعداد 8 لاکھ 72 ہزار ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب مساجد و مدارس کے علاوہ تقریباً چونتیس ہزار درگاہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب مسلمانوں کے قبرستان ہیں۔ اسپتال اور تعلیمی اداروں سمیت ایک بڑی تعداد زرعی اور غیر زرعی زمین کی بھی ہے۔ یوں نئے وقف ترمیمی قانون کے تحت اگر ان جائیدادوں میں سے بیشتر کو مسلمانوں سے چھینا جاتا ہے تو یہ صرف ایمان اور عبادات پر ہی حملہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے اثرات مسلمانوں کی معاشی حالت اور فلاح و بہبود پر بھی مرتب ہوں گے۔ قصہ مختصر وقف کی یہ املاک بیک وقت مذہبی ، خیراتی، سماجی و اقتصادی سرگرمیوں کے لئے بہت ضروری ہیں۔
ان املاک میں وقف کردہ مساجد، درگاہیں، قبرستان، اسکول، اسپتال اور زرعی اراضی، مسلمانوں کی مجموعی فلاح و بہبود کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں۔ نئے ترمیمی ایکٹ سے یہ تمام فلاحی و سماجی سرگرمیاں اور ترقیاتی کام متاثر ہونے جارہے ہیں، جس سے بدحال بھارتی مسلمانوں کی حالت مزید بدتر ہوسکتی ہے۔ دہلی میں پہلے ہی دوسو اکہتر وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں کیونکہ ان کے پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت السلام بھی ہے، جو قطب مینار کے پہلو میں واقع ہے۔
اسی طرح تاج محل پر بھی بی جے پی سرکار اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کی نظریں ہیں۔ ان میں سے کئی یہ مضحکہ خیز دعویٰ کرچکی ہیں کہ تاج محل کی جگہ ماضی میں بھگوان شیو کا مندر تھا۔ چند برس پہلے بی جے پی رہنما ونے کٹیار نے یہ بے پرکی اڑائی تھی کہ تاج محل کو شاہ جہاں نے ایک ہندو مندر کو تباہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔
نئے وقف ترمیمی ایکٹ کی ایک اور متنازعہ ترین شق یہ ہے کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے کی لازمی شرط رکھ دی گئی ہے۔ جبکہ وقف کا چیئرمین بھی ہندو ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس ہندو اوقاف ٹرسٹ یا سکھوں کے اوقاف ٹرسٹ میں کسی اور مذہب کے ارکان کی شمولیت کی اجازت نہیں۔ اسی طرح نئی ترامیم میں وقف املاک کے سروے کا اختیار سرکاری افسران کو منتقل کردیا گیا ہے، جن کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔
ایک اور ترمیم یہ کی گئی ہے کہ زمین پر دعویٰ کرنے والا فرد وقف ٹربیونل کے علاوہ روینیو کورٹ ، سول کورٹ یا ہائی کورٹ میں اپیل کرسکے گا۔ اس سے قبل دعویٰ کرنے والا صرف وقف ٹربیونل میں اپیل کرسکتا تھا، جس کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔
واضح رہے کہ وقف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لفظی معنی ٹھہرنا، رکنا، قیام یا محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ دینی مفہوم کے مطابق ’’وقف‘‘ اس جائیداد اور شے کو کہتے ہیں جو عبادت اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے صدقہ جاریہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کے نام پر عطیہ کردی گئی ہو۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos