عمران خان :
حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے زر مبادلہ کی ترسیل کیخلاف ایف آئی اے کے کریک ڈائون میں اب تک کوئی بڑی مچھلی ہاتھ نہیں آئی ہے۔ جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہنڈی حوالہ نیٹ ورک گلی محلوں تک پہنچ گیا ہے۔ ستّر برس پرانے قوانین کو موثر نہ بنانے کی وجہ سے ملوث ملزمان میں سے بعض کے پکڑے جانے کے باجود مقدمات اور گرفتاریوں کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس مذم دھندے میں ملوث اہم افراد خود کو بچانے کیلئے قانون میں موجود خامیوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ حوالہ ہنڈی کے بڑے نیٹ ورک چلانے والے ماسٹر مائنڈ کسی بھی قسم کی دستاویزات پر نہ دستخط کرتے ہیں اور نہ ہی کمپنیوں کے ریکارڈ میں اپنے نام شامل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کا دستاویزی ریکارڈ نہ ملنے پر انہیں ایف آئی اے کی تحقیقات اور مقدمات میں شامل نہیں کیا جا رہا۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کے تحریری بیانات عدالتوں میں قلمبند کرانے کے بعد ان ماسٹر مائنڈ ملزمان کو اعانت جرم میں نرغے میں لایا جاسکتا ہے۔ تاہم ان کو بچانے والے بااثر افراد اعلیٰ حکام پر دبائو ڈال کر تفتیشی افسران کو یہ اختیار استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہے۔ جس کے نتیجے میں پرانے ایجنٹوں کی اولادوں نے اس کام کو گلی محلوں تک پھیلا دیا ہے۔ جس کسی کے بھی بیرون ملک کوئی عزیز رشتے دار یا دوست احباب موجود ہیں۔انہوں نے حوالہ ہنڈی کا کام شروع کردیا ہے۔ یعنی بیرون ملک جن کو ادائیگی کروانی ہوتی ہے، انہیں بیرون ملک ہی موجود اپنے عزیزوں سے ڈالرز میں رقوم دلواکر اس کی وڈیو پاکستان بھیج دی جاتی ہے۔ جس کے بعد پاکستان میں اس کے مساوی رقم اور بھاری کمیشن وصول کرلیا جاتا ہے۔
اس طرح یومیہ پاکستان کو اس غیر قانونی اور غیر بینکنگ چینل کے استعمال سے اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ پرانے ایجنٹوں کی اولادیں اور ان کے نوجوان دوست اس دھندے کو جلد از جلد امیر ہونے کیلئے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ ذرائع کے بقول یہ صورتحال اس وجہ سے بنی ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں ایف آئی اے بڑے مگرمچھوں کو پکڑنے میں ناکام رہی اور فارن ایکسچینج ریگولیٹری ایکٹ میں کم سزائوں اور معمولی جرمانوں کو موثر سزائوں میں نہ بدلے جانے کی وجہ سے ملزمان میں ڈر ختم ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ انہیں گرفتاری کے بعد جلد ہی ضمانتیں مل جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے کراچی کے تحت بیرونی ممالک سے اربوں روپے کا قیمتی زر مبادلہ غیر قانونی طریقوں سے کراچی منتقل کرنے والی مافیا کیخلاف ایسی 20 مختلف کارروائیاں کی گئیں۔ جس میں حوالہ ہنڈی میں ملوث پانچ ایجنٹوں، پانچ تاجروں اور ایک منی چینجر کے دو ملازمین سمیت 13 افراد کو حراست میں لے کر حوالہ ہنڈی اور ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے۔ ان میں بعد ازاں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ان تمام کارروائیوں میں لائسنس یافتہ ایک ہی منی ایکسچینج کمپنی، میگا کرنسی کے خلاف کارروائی کی گئی۔ لیکن اس کے خلاف اب تک ہونے والی تحقیقات میں اصل ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا۔
معلومات کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیموں نے ایئرپورٹ، گل پلازہ، اکبر کلاتھ مارکیٹ، شارع فیصل اور صدر زینب مارکیٹ کے علاقوں میں جن کمپنیوں کے خلاف حوالہ اور ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت کارروائیاں کیں۔ ان میں مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ اور میگا کرنسی ایکسچینج زیادہ معروف ہیں۔ تاہم مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کمپنی کے سینما کے مالک اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے بھائی ندیم مانڈوی والا کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کے ایک ملازم کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کو بھی ایک روز میں ابتدائی تحقیقات کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس کارروائی کے بعد اب تک کئی ثبوت و شواہد سامنے آنے کے باوجود نہ تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی متعلقہ ملزمان کو گرفتار کیا گیاتھا۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو ابتدائی طور پر ہی 12 کروڑ روپے کی منتقلی کے ثبوت مل گئے تھے۔ یہ ثبوت ایف آئی اے افسران کو اس سے قبل کی گئی ایک کارروائی میں گرفتار ہونے والے حوالہ ایجنٹ شکیل جعفرانی سے کی گئی تفتیش میں ملے تھے۔ شکیل جعفرانی نے تحقیقات میں انکشاف کیا تھا کہ اس نے گزشتہ برسوں میں اومنی گروپ اور مانڈوی والا گروپ سمیت سینکڑوں دیگر کمپنیوں کیلئے زر مبادلہ کی غیر قانونی منتقلی کا کام کیا تھا۔ تاہم تمام ثبوت ملنے اور اسٹیٹ بینک کی چھٹیاں ختم ہوئے چار روز گزرنے کے باوجود مانڈوی والا کمپنی کے خلاف نہ تو باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی ندیم مانڈوی والا کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اسی طرح سے ایف آئی اے نے کراچی میں اہم سیاسی شخصیات اور سرکاری افسران کی رقوم حوالہ، ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کے الزام میں شارع فیصل پر نرسری کے قریب امبر پرائڈ کی دکان نمبر 3 میں قائم میسرز میگا کرنسی ایکسچینج کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ پر چھاپہ مارکر وہاں موجود منیجر سطح کے دو افسران نعمان خان اور محمد تنویر کو حراست میں لیا تھا۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک کے افسر اور ایکسچینج کے افسران و ملازمین کی موجودگی میں ملکی و غیر ملکی رقوم و دیگر ریکارڈ ضبط کیا گیا تھا۔
کارروائی میں ایکسچینج سے دو کروڑ 26 لاکھ 39 ہزار سے زائد ملکی و غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی، جس میں پرائز بانڈ، ڈالر، یورو اور دیگر کرنسی شامل تھی۔ اس کے علاوہ ضبط کیے گئے سامان میں موبائل فونز بھی شامل تھے۔ جن میں حوالہ ہنڈی کے کاروبار سے متعلق ٹیکسٹ میسجز اور وائس میسجز موجود تھے۔ جبکہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر سیلنگ (ٹی ٹی ایس) کے ای میلز ریکارڈ اور لیپ ٹاپ بھی شامل تھے۔
اس کارروائی کے بعد ایف آئی اے حکام کے مطابق گرفتار ملزمان کے خلاف ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں مقدمہ الزام نمبر13/18 زیر دفعہ 4/5/8/23 فارن ایکسچینج ریٹ ریگولیشن (ایف ای آر) 1947، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی سیکشن 3/4 کے تحت درج کر کے تفتیش شروع کردی گئی تھی۔ تاہم اس کے پیچھے سرگرم پورے نیٹ ورک کو اب تک بے نقاب نہیں کیا جاسکا۔