پشاور سمیت صوبے بھر کے تاجر افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں ، فائل فوٹو
 پشاور سمیت صوبے بھر کے تاجر افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں ، فائل فوٹو

خیبر پختونخوا میں بھارتی فلموں کی سی ڈیز نذرِ آتش

محمد قاسم :

بھارتی آبی جارحیت کے خلاف حکومت پاکستان اور عوام ایک آواز ہو گئے۔ سرکاری و غیر سرکاری ریڈیو پر بھارتی گانے نشر کیے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ پشاور سمیت صوبے بھر میں شہریوں نے بھارتی فلموں کا بائیکاٹ بھی شروع کر دیا۔

اسی طرح کارخانو مارکیٹ کے علاوہ نشتر آباد اور دیگر علاقوں میں بھارتی فلموں کی سی ڈیز کو آگ لگا دی گئی۔ جبکہ کیبل چلانے والے مالکان نے آئی پی ایل سمیت بھارتی سپورٹس چینل بھی دکھانا بند کر دیئے۔ بھارتی آبی جارحیت اور ڈرامہ بازی کے خلاف حکومت پاکستان اور عوام ایک آواز ہو گئے اور بھارتی سازشوں کا بھر پور جواب دیا جانے لگا ہے۔ اب ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے صوبے میں سرکاری و غیر سرکاری ریڈیو پر بھارتی گانے نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور مختلف ایف ایم ریڈیو زپر بھارتی گانے نشر کرنے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔

جبکہ صوبے بھر میں شہریوں نے بھارتی فلموں کا بائیکاٹ بھی شروع کر دیا ہے اور بھارتی فلموں کی خرید و فروخت احتجاجی طور پر بند کر دی ہے اور مختلف ڈراموں، گانوں کی سی ڈیز کی خریدو فروخت بھی تاجروں نے احتجاجی طور پر بند کر دی ہے۔ جبکہ اس تناظر میں پشاور کی کارخانو مارکیٹ سمیت نشتر آباد اور بعض دیگر علاقوں میں جہاں پر بھارتی گانوں اور نئی و پرانی فلموں کی سی ڈیز دستیاب تھیں، تاجروں نے بطور احتجاج ان سی ڈیز کو آگ لگا دی اور کہا ہے کہ وہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ہر اس چیز کا بائیکاٹ کیا جائے گا جس سے بھارت کو فائدہ پہنچے۔ کیونکہ بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور ہمیں حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم بھارتی ڈراموں،گانوں اور فلموں کے کاروبار کو کیسے پھیلا سکتے ہیں۔ اسی لئے سی ڈیز کو آگ لگا دی ہے اور ساتھ ہی بھارتی پرچم بھی نذر آتش کئے ہیں۔

پشاور کے نشتر آباد میں سی ڈیز کے کاروبار سے وابستہ ایک تاجر غلام فرید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ گزشتہ 10سال سے یہاں پر کاروبار کر رہے ہیں اور ان کے پاس پاکستانی پرانی فلموں سے لیکر بھارتی فلموں، گانوں اور ڈراموں کے علاوہ کارٹونز کی سی ڈیز بھی دستیاب تھیں۔ تاہم اب انہوں نے صرف پاکستانی ڈراموں، گانوں اور فلموں کی سی ڈیز رکھی ہوئی ہیں جس میں پشتو کے معروف اور مزاحیہ ڈرامے بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل تو سارا مواد یوٹیوب پر مل جاتا ہے تاہم شہر میں کمپیوٹر ز میں تمام ڈیٹا محفوظ کرکے بھارتی فلموں کو یو ایس بی کے ذریعے فروخت کیا جارہا تھا۔

اسی طرح بھارتی ڈرامے، کارٹونزوغیرہ بھی یوایس بی میں لیکر لوگ گھروں میں ایل سی ڈی پر دیکھ رہے تھے۔ تاہم جب سے بھارت نے پاکستان کے خلاف نئی سازش شروع کی ہے اور حملے کی دھمکیاں دی ہیں، اس کاروبار سے وابستہ افراد نے بھی بھارتی ڈرامے، فلموں اورگانوں کو ڈیلیٹ کر دیا ہے اور صرف پاکستانی ڈرامے اور دیگر مواد لوگوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پشاور کے کارخانو مارکیٹ میں بھارتی فلموں کی سی ڈیز کو آگ لگائی گئی ہے اور تاجروں نے بھارتی حکومت اور مودی کے خلاف اس موقع پر شدید نعرہ بازی بھی کی۔

دوسری جانب پشاور میں کیبل مالکان نے بھارتی اسپورٹس چینلوں کا بھی بائیکاٹ کر دیا ہے اور آئی پی ایل کی براہ راست کوریج کا سلسلہ بھی روک دیا ہے اور وہ تمام سپورٹس چینل جو بھارت سے منسلک تھے یا بھارت ان کا سرپرست تھا، بند کر دیئے ہیں۔ تاکہ ان چینلوں کو دکھانے کے عوض جو معاوضہ وہ ادا کر رہے تھے اور اس کا فائدہ بھارت کو پہنچ رہاتھا، یہ سلسلہ بھی رک جائے جسے شہریوں کی طرف سے بھی بہت سراہا گیا ہے۔

پشاور کے ایک شہری عبد اللہ نے بتایا کہ ’’ہم پہلے ہفتے میں ایک یا دو بھارتی فلمیں دیکھ لیا کرتے یا بھارتی گانے وغیرہ سنتے تھے۔ تاہم اب یہ سلسلہ مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ کیونکہ بھارت ہمارا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے اور جو سازشیں وہ پاکستان کے خلاف کر رہا ہے اس کا جواب حکومت اور پاک فوج اس کو اچھی طرح سے دے رہی ہیں۔ تاہم پاکستان کے عوام کو بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہنا چاہیے اور اس سلسلے میں ہم پاکستانی فوج سے مکمل یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور ہر اس چیز کا بائیکاٹ کیا جائے گا جس کا تعلق بر اہ راست بھارت سے ہوگا۔

بھارت اگر ہمارے پی ایس ایل میچوں کو اپنے ملک میں نہیں دکھا رہا تو ہم بھی اس کے آئی پی ایل میچ نہیں دیکھیں گے۔‘‘ جبکہ شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات آئندہ بھی قائم نہ کئے جائیں کیونکہ بھارت آستین کا سانپ ہے جو چھپ کر ڈستا ہے اور اس نے ہمیشہ پاکستان اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کو بھی بھارت کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔