پاک فوج کے ساتھ پوری قوم ڈٹ کر کھڑی ہے ، فائل فوٹو
 پاک فوج کے ساتھ پوری قوم ڈٹ کر کھڑی ہے ، فائل فوٹو

65ء کی جنگ میں استعمال لٹھ آج تک محفوظ

نواز طاہر:
پنجاب کے سرحدی علاقوں کے عوام کو بھارت کی مودی سرکار پر اعتبار نہیں اور وہ پاکستان کی فتح پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ابھی بھی خود کو جنگی حالات میں تصور کرتے ہوئے دفاع کیلئے ہر لمحہ تیار ہیں۔ شہریوں نے جنگ کے دوران نہ صرف یہ کہ انخلا نہیں کیا بلکہ مورچے بناتے رہے۔ بعض لوگوں نے وہ لٹھ (ڈانگ) نکال لیے جو ان کے آبا و اجداد نے 65ء کی جنگ میں استعمال کیے تھیں اور پاک وطن کا دفاع کیا تھا۔

واضح رہے کہ سیز فائر کا اعلان ہونے تک پنجاب میں سرحدی دیہات کے عوام نے انخلا نہیں کیا تھا، بلکہ مقامی دفاع مستحکم کیا تھا۔ اب ان دیہات میں فتح کے جشن ہیں۔ یہاں کے مقامی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ان کے اکابرین نے دفاع کیا تھا۔ اپنا گھر بار خالی نہیں کیا تھا۔ مورچے بنائے تھے۔ اب بم بھی اسی طرح ہر لمحہ تیار ہیں۔

اس ضمن میں سرحدی گائوں کے ابرار احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے دادا نے 65ء کی جنگ میں ڈانگ سے پاک وطن کا سے دفاع کیا تھا۔ وہ ’ڈانگ‘ (لٹھ یا بڑی لاٹھی) میرے والد نے سنبھال کر رکھا اور اس کی تیل سے مالش کرتے رہے۔ گزشتہ بیس سال سے اس ورثے کی ہم تمام بھائی حفاظت کر رہے ہیں۔ وقتا فوقتا تیل لگاکر اس یادگار کو چمکاتے ہیں اور بی آر بی نہر کے کناروں پر گاڑھ کر اسے علامتی سیلوٹ کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے اور لوگ بھی ہیں۔ انہوں نے اب بھی اپنے ڈنڈوں کو تیا کر رکھا ہے‘‘۔

ظفر وال کے رانا رمضان کا کہنا تھا ’’اگرچہ ہم اب لاہور میں سیٹل ہوچکے ہیں۔ مگر زمین سے ناتا نہیں توڑا۔ بھارتی جارحیت سے ایک دن پہلے ہی ٹھروہ منڈی اور کوٹلی میں موجود تھا۔ جس دن واپس آنا تھا، اسی شب مودی نے ناکام حملے کیے اور ہمیں 71ء کی جنگ یاد آگئی۔ ہم سرحدی دیہات کے لوگ خوف نہیں کھاتے۔ اس بار بڑی جنگ کے خطرات تھے۔ میں گھر سے نکلا اور ڈیک پر چلا گیا۔ یہ ڈیک ہمارا مورچہ ہے۔ اگرچہ اب سوکھی ہے۔ میں نے لاہور فون کیا اور ہم لوگ دفاع کی روایتی تیاری میں لگ گئے۔ ہماری خواہش تھی کہ اب بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ مگر اس کی نوبت نہیں آئی اور وہ پہلے ہی بھاگ گیا‘‘۔

ستلج کنارے قصبے پیر غنی کے جبار شاہ کہتے ہیں ’’اس جنگ نے چھیاسٹھ برس کی عمر میں مجھے جوان کر دیا ہے۔ پاکستانی محافظوں نے بھارت کو جس طرح جواب دیا۔ اس نے مجھے نوجوان بنادیا ہے۔ میں جب ستلج کی سوکھی مٹی اور ریت کو دیکھتا ہوں تو میرا خون کھول جاتا ہے۔ اللہ نے مجھے بیٹیاں ہی عطا کیں، جو تمام معلمات ہیں۔ اگر بیٹا عطا کیا ہوتا تو اسے دفاع وطن کیلئے فوجی بناتا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ستلج دریا کو اپنی زندگی میں ہی جوان دیکھیں گے اور یہ سب پاک فوج کی مدد سے ہوگا۔ دو دن بھارت نہ بیٹھتا تو ہمارے جوان بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجاکر روکا ہوا پانی بھی ستلج سمیت تمام دریائوں میں لاچکے ہوتے۔ جس طرح پاک فوج اور خاص طور پر پاک فضائیہ نے مودی کا غرور خاک میں ملایا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں قریبی بھارتی حسینی والا میں اپنے نانا کے گائوں میں بیٹھا ہوں۔ جہاں میں 71ء کے بعد صرف ایک بار گیا تھا‘‘۔

ضلع نارروال کی تحصیل میں راوی سے ملحقہ سرحدی گائوں کے رشید احمد نے ’’امت‘‘ سے اپنے جذبات شیئر کرتے ہوئے کہا ’’میں 65ء کی جنگ میں پندرہ برس کا تھا۔ ہمارے ان علاقوں میں مشرقی سرحد سے بھارتی ٹینکوں کا پہلا راستہ رینجرز نے روکا تھا اور پھر فوج کی پلٹونیں سج گئی تھیں۔ قیام پاکستان میں دکھ اور مصائب اٹھانے والے فوجی جوانوں کے ساتھ ہم اپنے جذبات اور دستیاب لاجسٹک امداد کے ساتھ لڑے۔ 71ء کی جنگ میں بھی یہ جذبہ کم نہیں تھا۔ اب موجودہ جنگ تو پاک فضائیہ نے جیتی ہے۔ زمین پر تو جنگ آئی ہی نہیں۔ اس بار فتح کا پہلے سے یقین اور اعتماد تھا۔ یہ جنگ پاک فوج اور قوم کے اعتماد نے جیتی ہے۔ اس جنگ نے قوم کا اتحاد مزید مضبوط کردیا ہے اور پاک فوج پر اعتماد اور بھروسہ مزید بڑھادیا ہے‘‘۔

قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر کہتے ہیں ’’میں نے 65ء کا دفاع سنا اور پڑھا۔ میں موجودہ دفاع کی بات کروں گا تو اتنا ہی کہوں گا کہ پوری قوم پاک افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ بری ، بحری اور فضائیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ فاتح ہے۔ دشمن میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اس کی آنکھ نہیں رہے گی۔ پاک فضائیہ کو اس وقت پوری دنیا فضائوں کی بادشاہ مان رہی ہے‘‘۔

ایم پی اے رانا آفتاب احمد خان کا کہنا ہے کہ ’’جنگ انجوائے کرنے کیلئے نہیں ہوتی۔ ہماری قوم مشکلات سے لڑنا جانتی ہے اور ہمیشہ مقابلہ کرتی ہے۔ فتح کے یقین کے ساتھ۔ اس کا دفاع کرنے کا جذبہ یوں لگتا ہے کہ انجوائے کیا جارہا ہے۔ جو دشمن پر اخلاقی وار ہوتا ہے۔ جس طریقے سے یہ قوم اکٹھی ہوئی اور جس طرح سے ہماری مسلح افواج نے دشمن کو جواب دیا، اس سے ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں پاکستان کے بہادر سپوتوں کو۔ جنہوں نے منہ توڑ جواب دیا‘‘۔

رانا آفتاب احمد خان نے مزید بتایا کہ پاک فضائیہ اور پاکستان کا فخر کامران مسیح اتفاق سے اسی اسکول میں پڑھا ہے جس میں خود پڑھتا رہا ہوں۔ ہم بہت خوش ہیں۔ جب وہ واپس گھر آئے گا تو اس خوشی کو سیلیبریٹ کریں گے‘‘۔ پاکپتن سے رکن صوبائی اسمبلی جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ ’’جب بھی پاکستان پر برا وقت آیا پوری قوم نے ڈٹ کر متحد ہوکر اس کا مقابلہ کیا۔ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور قوم کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔ اسی جذبے کے ساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی آگے بڑھنی چاہیے۔ پاک فوج اور شاہینوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔

رکن صوبائی اسمبلی اعجاز بخاری نے کہا ’’پاک فضائیہ کا کردار سب سے عظیم ہے۔ میں نے 65ء والا جذبہ دیکھا اور ہماری ایئر فورس کا اپر ہینڈ رہا‘‘۔ سینئر رکن صوبائی اسمبلی بیگم ذکیہ شاہنواز کا کہنا ہے کہ ’’جب بھی جنگ ہوتی ہے، عوام ہمیشہ پاک فوج کے ساتھ ہوتی ہے جذبہ اسی طرح رہتا ہے۔ کبھی کم نہیں ہوتا۔ یہ سب پر عیاں ہے۔ پاکستان نے بہت کوشش کی جنگ نہ ہو۔ مگر مودی باز نہیں آیا اور جنگ مسلط کی۔ جس پر اللہ کے فضل و کرم سے ایئرفورس نے کمال کر دکھایا۔ ان کو ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ یاد رکھیں گے۔ ان شا اللہ‘‘۔