اشاروں کی زبان نشر کرنے کے اخراجات پارلیمانی بجٹ سے نہیں ہوں گے، فائل فوٹو
 اشاروں کی زبان نشر کرنے کے اخراجات پارلیمانی بجٹ سے نہیں ہوں گے، فائل فوٹو

پنجاب اسمبلی میں اشاروں کی زبان میں کارروائی کا احوال

نواز طاہر:
پنجاب میں پارلیمانی کارروائی سے خصوصی افراد کو استفادے کیلئے بھی خصوصی اقدامات کردیے گئے ہیں اور اب تمام کارروائی اسکرین پر اشاروں کی زبان میں بھی براڈ کاسٹ کی جاتی رہے گی۔ یہ ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلا تجربہ ہے جسے ابتدائی طور پر محض تجرباتی قراردیا جارہا۔ تاہم اس کی لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کی روشنی میں اسے مستقل فیچر بھی قراردیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اشاروں کی زبان میں پارلیمانی براڈ کاسٹنگ کا پہلا ملک بن گیا ہے اور ابتدائی طور پر اس کے اخراجات پارلیمانی بجٹ سے ادا نہیں ہوں گے۔

پنجاب اسمبلی میں اس کا تجربہ پہلے روز خصوصی سیشن میں کیا گیا جس میں تمام ایجنڈا موخر کرکے پاک بھارت جنگ میں مسلح افواج اور خاص طور پر فضائیہ کے شاہینوں کی بہادری کی تحسین کی قرارداد ایوان میں منظور کی گئی۔ یہ بحث بدھ کے روز تک جاری رہے گی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق یہ براڈ کاسٹنگ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے خصوصی افراد کو سہولیات فراہم کرنے کا ویژن بھی بتائی جارہی ہے۔ تاہم اس کی تصد۸یق نہیں کی جارہی۔ اسمبلی ذرائع نے بتایا ہے کہ اب تک کسی انٹرپریٹر ( ٹرانسلیٹر ، مترجم ) کا تقرر نہیں ہوا جس کی تصدیق اسمبلی کے شعبہ انتظامیہ نے بھی کی ہے۔ دو روز سے اشاروں میں زبان میں ترجمہ کے ساتھ براڈ کاسٹ کرنے والی خاتون انٹر پریٹر نے پیر کو بھی پانچ گھنٹے سے زائد طویل اجلاس کی اشاروں کی زبان مین ترجمانی کی اور یہی صورتحال منگل کے روز بھی رہی۔

اسمبلی ذرائع کے مطابق صرف ایک انٹر پریٹر سے کام چلانا مشکل ہے۔ کیونکہ اسمبلی کا ریکارڈ مرتب کرنے والے رپورٹرز دس دس منٹ کی شفٹ مین کام کرتے ہیں جو مختصر نویسی کی مہارت ہونے کے ساتھ ساتھ آڈیو ریکارڈنگ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ اس لئے اشاروں کی زبان کیلئے بھی کم از کم دو یا تین انٹرپریٹرز رکھنا ہوںگے۔

ایک انٹر پریٹر کی استعداد کار کے حوالے سے کیری کیچ اور کے ساتھ کام کرنے والے سوشل میڈیا ورکر فہد نواز نے بتایا کہ ا شاروں کی زبان میں ایک انسان دو سے تین گھنٹے تک کام کرسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کرنے کی صورت میں اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ تاہم مقامی یونیورسٹی کی اسپیشل ایجوکیشن کی طالبہ وردہ نذیر نے بتایا کہ ایک کارکن تین گھٹے تک خدمات ادا کرسکتا ہے اس کا یہ دورانیہ چار گھنٹے تک بھی ممکن ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کام کرنے کی صورت میں اس کے اعصاب تھک جاتے ہیں اور کام جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے بتایاکہ ہمارے ٹیچرز جن کا معمول ہے وہ بھی تین گھنٹے سے زیادہ کی کلاس نہیں لیتے اور تین گھنٹے کے بعد تھکاوٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ترجمان رائو ماجد نے بتایا ہے کہ انٹر پریٹرز پنجاب اسمبلی کے اسٹاف کا حصہ نہیں، البتہ مستقبل میں ہوںگے یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم اس وقت خدمات انجام دینے والی انٹر پریٹر محکمہ خصوصی تعلیم کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔

اس محکمے کا قلمدان وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس ہے۔ ان دنوں اس کی انچارج وزیراعلیٰ کی معاونِ خصوصی برائے خصوصی تعلیم ثانیہ عاشق جبین ہیں۔ رائو ماجد کے مطابق یہ انٹر پریٹر ثانیہ عاشق جبین کی طرف سے فراہم کی گئی ہے اور ابھی تجربہ ہورہا ہے۔ لیکن اس کا اسمبلی کے وسائل پر بوجھ نہیں۔ یہ خدمات ایسے ہی ہوںگی جیسے ریسکیو ون ون ٹو تو کا اسٹاف فراہم کرتا ہے اور سورسز اسپتال کی طرف سے میڈیکل ٹیم اسمبلی کے سیشن کے دنوں میں اور دیگر ایام میں سروسز فراہم کرتی ہے۔

ان اطلاعات کی تصحیح کرتے ہوئے چودھری امجد علی جاوید نے بتایا کہ یہ سارا کریڈٹ اسپیکر پنجاب اسمبلی کا ہے جنہوں نے میری تجویز اور درخواست پر مہربانی کی اور آج ہم جنوبی ایشیا میں اشاروں کی زبان میں اسمبلی کی کارروائی دکھانے والا پہلا ملک بن گئے ہیں۔ امجد علی جاوید کے مطابق خصوصی افراد بنیادی طور پر معاشرے میں بحیثیت مجموعی نظر انداز ہورہے ہیں۔ خاص طور پر بولنے اور سننے کی قوت نہ رکھنے والے افراد بہت زیادہ نظر نداز ہورہے ہیں اور میں نے اپنے حلقے میں ایسے افراد کی ایک ٹیم بنا رکھی ہے۔ مجھے دیگر خصوصی افراد کے ساتھ ساتھ قوت گویائی سے محروم افراد سے زیادہ لگائو اور قربت ہے۔