فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایف بی آر کی نااہلی سے اربوں کی ٹیکس چوری جاری

عمران خان :

ٹیکس چوری میں ملوث کئی بڑے کاروباری گروپوں کے سہولت کار ٹیکس کنسلٹنٹس اور پرال افسران کے حوالے سے ایف بی آر کی ٹیمیں اہم شواہد حاصل کرنے کے باوجود، اب تک ان سہولت کاروں کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں ناکام ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی وارداتیں جاری ہیں اور محصولات کا ہدف پورا کرنے میں یہ اہم وجہ بن گیا ہے۔ایف بی آر کراچی ذرائع کے مطابق ان سہولت کاروں میں ایف بی آر کے بعض ریٹائرڈ اور برطرف افسران ماسٹر مائنڈ بن گئے ہیں جو ٹیکس چوروں کو قانونی طریقے بتا نے کے ساتھ کرپٹ افسران کے ساتھ ان کے معاملات بھی طے کروادیتے ہیں۔

موصول اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی کراچی میں ایسے نیٹ ورک موجود ہیں جو ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے لئے غریب شہریوں کے ڈیٹا پر جعلی کمپنیاں بنائے جانے کے3 بڑے اسکینڈلزکے مقدمات میں زیر تفتیش ہیں۔ تاہم ان کے مرکزی کرداروں کی گرفتاریاں ممکن نہیں ہوسکی ہیں۔ ان کیسوں میں کارروائی صرف درجنوں کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے تک محدود رہی۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول ان تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کاروباری کمپنیوں کے ٹیکس معاملات سیدھے کرنے کی خدمات انجام دینے کے ساتھ ہی ٹیکس چوری، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور ناجائز فائدہ بٹورنے کے لئے یہ کنسلٹنٹ معاون کار بن رہے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر یہ کنسلٹنٹ از خود بوگس کمپنیوں کے قیام، انہیں چلانے اور جعلی سیل پرچیز کے ذریعے بوگس انوائسیں بنوانے میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ ایف بی آر تحقیقات میں زیر تفتیش ایک ٹیکس کنسلٹنٹ گلریز خان کو عدالت کی جانب سے گزشتہ دنوں دیئے گئے احکامات میں بغیر بتائے سفر کرنے سے بھی منع کردیا تھا۔

ایف بی آر ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی ان لینڈ ریو نیو کی ٹیم کی جانب سی ٹاپ اینڈ میٹل انڈسٹریز اور ہاربر میٹل انڈسٹریز کے ڈمی کمپنیوں اور بوگس انوائسوں پر اربوں کے ٹیکس فراڈ کی تحقیقات کے سلسلے میں کچھ عرصہ قبل ڈیفنس کے علاقے بدرکمرشل کی اسٹریٹ نمبر 6 کے پلاٹ نمبر 4C کے آفس نمبر 201 میں کارروائی کرتے ہوئے ملزم گلریز احمد رضا کو حراست میں لیاگیا۔ جس کے بعد انہیں کسٹمز ٹیکسیشن اینڈ اینٹی اسمگلنگ کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں بتایا گیا کہ گلریز احمد رضا ٹیکس کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔

تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ٹیکس فراڈ کے لئے جعلی اور بوگس گوشوارے ان کے آفس کی آئی پی ایڈریس سے ایف بی آر سسٹم میں جمع کروائے گئے۔ ایف بی آر کے مطابق تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ سجاد حسین اور ثاقب رضا اس لاء فرم کے ملازمین کی حیثیت سے گلریز رضا کی ہدایات پر ان دونوں کمپنیوں کے اکائونٹس سے بھاری رقوم نکلواتے رہے۔ جس کی تفصیلات دونوں ملزمان کے موبائل فونز اور ای میل سی لی گئیں۔ اس کیس میں ٹیکس فراڈ کی مالیت 10 ارب بتائی گئی اور عدالت سے ملزم گلریز احمد رضا سے تفتیش کے لئے 10 دنوں کا جسمانی ریمانڈ مانگا گیا۔ تاہم عدالت کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی گئی۔ تاہم ملزم کو پابند کیا گیا کہ وہ بغیر بتائے شہر سے باہر نہیں جاسکتا۔

جبکہ تفتیشی افسران کے لئے قرار دیا گیا کہ اگر تفتیش میں مزید ٹھوس شواہد سامنے آتے ہیں اور وہ گرفتاری کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو اپنے قوانین کے مطابق کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس کیس کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں سندھ بار کونسل کے ہائی کورٹ میں انتخابات جاری تھے، جیسے ہی ایف بی آر کی یہ کاررائی ہوئی متعدد وکلا ایف بی آر کے دفتر اورعدالت میں مذکورہ ٹیکس کنسلٹنٹ کودبائو ڈال کر بچانے پہنچ گئے تھے۔

انہی دنوں ایف بی آر ریجنل ٹیکس آفس ون کی تحقیقات میں کراچی سے چلائے جانے والے ایک ہی نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں رجسٹرڈ کی گئی 200 بوگس کمپنیوں کے ذریعے 314 ارب کی جعلی سیلز انوائسز کے فراڈ کا انکشاف سامنے آیا۔ اس ضمن میں درج کئے جانے والے مقدمہ کے مطابق کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons) کے لیے گزشتہ برس فروری کے مہینے میں سیلز ٹیکس رجسٹریشن حاصل کی گئی اور بعد ازاں اپریل میں کمپنی کی جانب سے جو سیلز ٹیکس ریٹرنز کی انوائسیں جمع کروائی گئیں۔ ان میں 1 ہزار 748 ارب روپے کی خریداریاں ظاہر کی گئیں جن پر 314 ارب روپے سیلز ٹیکس بنتا تھا۔

مذکورہ کمپنیوں کے حوالے سے ریٹرنز جمع کروانے کے لئے متعلقہ انوائسیں، تین مختلف ٹیکس کنسلٹنٹ کمپنیوں بلال حمید اینڈ کو، بیکن لا ایسوسی ایٹ اور عبید لا ایسوسی ایٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے۔ ان کے دفاتر میں تحقیقات میں عبید لا ایسوسی ایٹ کے عبید خان نے اپنے بیان میں اعتراف کرتے ہوئے ایف بی آر ٹیم کو بتایا کہ کمپنی کے ایچ اینڈ سنز (KH & Sons) کے ریٹرنز ان کی کمپنی کی جانب سے سروس فراہم کرکے جمع کروائے گئے۔ عبید خان نے مزید بتایا کہ اس کمپنی کے ریٹرنز ان کے ایک ملازم حماد جاوید نے اس وقت جمع کروائے جب وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ عبید خان نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ ان کی کمپنی کی جانب سے جو معلومات اور دستاویزات ایف بی آر میں جمع کروائی گئیں، وہ انہیں کمپنی کی جانب سے اویس اسماعیل نے فراہم کی تھیں۔

اسی طرح سے ڈائریکٹوریٹ جنرل ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کراچی کی ٹیم نے44 ارب کے ٹیکس فراڈ اسکینڈل کی کارروائی میں پہلی بار ایف بی آر کا کمپیوٹرائز خودکار نظام چلانے کی ذمے دار کمپنی ’’پرال ‘‘ پاکستان ریونیو آٹو میشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے ایک ملازم کو بھی گرفتار کیا گیا۔ جوکہ ٹیکس چوروں کو آٹو میشن سسٹم میں نقب زنی اور ریکارڈ کے ردوبدل کے لئے سہولت کاری فراہم کر رہا تھا۔

ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملوث ملزمان نے ’’زیڈ اے ایمپیکس ‘‘ کے نام سے بوگس کمپنی قائم کرنے کے بعد ایف بی آر کا کمپیوٹرائزڈ نظام چلانے کی ذمے دار کمپنی ’’پرال ‘‘ کے ملازم کی ملی بھگت سے 12 ارب روپے کا ٹیکس فراڈ کیا۔ اس کیس پر انکوائری کے بعد سامنے آنے والے ثبوت اور شواہد پر ایف بی آر ڈائریکٹوریٹ ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیوکراچی کی ٹیم نے اس نیٹ ورک کے تین اہم ملزمان کا سراغ لگاتے ہوئے پنجاب کے شہر فیصل آباد ، اسلام آباد اور مری کے قریب تین کارروائیاں کرکے تینوں ملزمان کو گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا۔

ان ملزمان میں بوگس کمپنی زیڈ اے ایمپیکس سے منسلک دو ملزمان، حسن کو فیصل آباد جبکہ فیصل میمن کو مری کے قریب سے حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح سے ان ملزمان کو ایف بی آر سسٹم میں نقب زنی کے لئے سہولت کاری دینے والے پرال کمپنی کے ملازم خلیل کو اسلام آباد سے حراست میں لے کر کراچی منتقل کیا گیاتھا۔

اسی طرح ٹیکس کنسلٹنٹ کے حوالے سے ایک اور کیس میں ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کراچی کو بڑی کامیابی اس وقت ملی جب 11 ارب روپے کے اسکینڈل کے سرغنہ حسن علی بادامی کی بعد از گرفتاری ضمانت اسپیشل جج کسٹم اینڈ ٹیکسیشن کراچی نے مسترد کردی، جس کے بعد اس کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ بعد ازاں ملزم جیل کسٹڈی کردیا گیا تھا۔ یہ ملزم کئی برسوں سے کراچی کے شارع فیصل کے قریب پوش آبادی میں ٹیکس کنسلٹنٹ کا کام کر رہا تھا اور اس دوران کئی کمپنیوں کے لئے بھاری کمیشن پر جعلی دستاویزات پر ٹیکس فراڈکئے جس میں قومی خزانے کو بھاری ریونیو کا نقصان پہنچا۔