اقبال اعوان :
کراچی کے ماہی گیر آبی حیات کے دشمن بن گئے۔ پابندی کے باوجود شکار پر جانے کے دوران پلاسٹک کے شاپرز سمندر میں یا کنارے پر پھینک دیتے ہیں۔ جس کے سبب مچھلیوں اور جھینگوں کی نسل خطرے میں ہے۔ ماہی گیر شکار کی جانے والی مچھلیوں کو الگ الگ 5 سے 7 کلو والی تھیلیوں میں ڈال کر برف خانے میں محفوظ کر دیتے ہیں اور کنارے پر آکر تھیلیاں پھاڑ کر جیٹی پر ادھر ادھر پھینک دی جاتی ہیں۔ جو سمندر میں چلی جاتی ہیں۔
آبی حیات کے ماہرین اس حوالے سے الرٹ جاری کرچکے ہیں کہ مچھلیوں، جھینگوں اور کچھووں سمیت دیگر مخلوق ان پلاسٹک کی تھیلیوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ شہر کے ندی نالوں کے کچرے میں بھی شاپنگ بیگز کی بڑی مقدار سمندر میں جاتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ گورنمنٹ نے 15 جون سے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کر دی ہے۔
کراچی فشری میں موجود ذمہ دار ناصر خان کا کہنا ہے کہ 4 سے 5 ہزار بڑی چھوٹی لانچوں پر تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ بار بار منع کرتے ہیں کہ سندھ حکومت نے ان شاپرز پر پابندی لگادی ہے۔ اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔ اس طرح کے کاموں سے بیرون ملک ہماری بے عزتی ہوتی ہے اور بعض ملک سی فوڈز پر پابندی عائد کر دیتے ہیں کہ پہلے یہ سلسلہ ختم کرائو۔
واضح رہے کہ کراچی فشری سے سندھ، بلوچستان شکار کیلئے جو لانچیں جاتی ہیں، وہ اپنے ساتھ برف کی وافر مقدار لے کر جاتی ہیں۔ اب ان کی شکار کی مدت ایک مہینے سے ڈیڑھ مہینے کر دی گئی ہے۔ ماہی گیر روزانہ صبح شکار کرکے جال سے مچھلیاں نکال کر برف خانے میں منتقل کرتے ہیں اور اوپر برف کا چورا کرکے ڈال دیتے ہیں۔ جب کنارے پرجاتے ہیں تو شروع کی چند روز کی مچھلیاں خاصی تازی نظر آتی ہیں۔ اس دوران 4 سے 5 روز کی شکار کی گئی مچھلیاں الگ کرنے کا وقت کم ہوتا ہے۔ کیونکہ روز ہی کشتیوں کو جگہ دینا ہوتی ہے۔ آجکل ماہی گیر پلاسٹک کی تھیلیوں کی کافی مقدار لے کر جاتے ہیں اور روزانہ شکار کر کے چھانٹی کرکے مختلف اقسام کی مچھلیاں الگ الگ تھیلیوں میں ڈال کر پیکٹ بناکر برف میں رکھتے ہیں۔
اس دوران استعمال شدہ یا خراب تھیلیاں کھلے سمندر میں پھینک دی جاتی ہیں اور کنارے پر آکر مچھلیاں نکال کر تھیلیاں ادھر ادھر جیٹی پر ڈال دی جاتی ہیں۔ جو سمندر میں چلی جاتی ہیں۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں اتنی جلدی ختم نہیں ہوتیں۔ بلکہ سمندر میں کچھووں کے منہ پر آجائے تو دم گھٹنے سے ان کی موت ہو جاتی ہے۔ ان تھیلیوں سے مچھلیاں، جھینگے اور دیگر آبی مخلوق بھی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ عرصے قبل یورپی یونین اور دیگر ممالک نے پلاسٹک شاپرز ختم کرنے کا کہا تھا۔ لہذا ان غیر قانونی شاپنگ بیگز کو ختم نہ کیا گیا تو اس کا اثر تجارت پر بھی پڑے گا۔
دوسری جانب لیاری ندی میں آدھے شہر کا گندا پانی، کچرا، شاپنگ بیگز کے ساتھ سمندر میں آتا ہے۔ اس طرح ملیر ندی، مختلف نالوں، ابراہیم حیدری، چشمہ گوٹھ سے ریڑھی کے ساحل تک کچرے کے ساتھ شاپنگ بیگز آتے ہیں۔ یہ مسئلہ اب سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ماہی گیر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی، کراچی فش ہاربر اور دیگر ادارے پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر کنٹرول کریں۔ فشر کوآپریٹر سوسائٹی کے سیکورٹی کے ذمہ دار ناصر خان بونیری کا کہنا ہے کہ شاپنگ بیگز کا مسئلہ بڑھ گیا ہے۔ جب لانچیں آتی ہیں تو ان کے لوگ نظر رکھتے ہیں کہ شاپرز ادھر ادھر نہ پھینکے جائیں۔ لیکن لیاری ندی کا ہائی واٹر کے وقت پانی آتا ہے تو اس کے ساتھ کچرا، شاپنگ بیگز بھی آتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos