عمران خان:
کسٹمز اسٹیٹ ویئر ہائوس میں اربوں کا اسکینڈل بے نقاب ہوگیا۔ جس میں قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ جبکہ سہولت کار خود کسٹمز کے افسران ہی نکلے۔ ساتھ ہی انکشاف ہوا ہے کہ ملوث افسران میں سے کئی کلرک، آفس سپرنٹنڈنٹ اور کچھ اسٹینوں گرافرز تھے۔ جنہیں انسپکٹرز اور سپرنٹنڈنٹ میں ترقیاں دے کر اہم عہدے دیے گئے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق محکمہ کسٹمز میں کرپشن اور اقربا پروری کا ایک نیا اور انتہائی تشویشناک واقعہ سامنے آیا ہے۔ جس نے نہ صرف ادارے کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بلکہ قومی خزانے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ لاہور میں قائم اسٹیٹ ویئر ہائوس کنار بند روڈ میں موجود ضبط شدہ غیر قانونی ایرانی خشک دودھ کی بھاری مقدار مبینہ طور پر کسٹمز افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے خورد برد کر لی گئی۔ جبکہ ترقیوں کے عمل میں بھی شدید بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔
گزشتہ برس 4 مارچ 2024ء کو کسٹمز انسپکٹرز کی سپرنٹنڈنٹ کے عہدوں پر ترقی کا عمل مکمل کیا گیا۔ جس میں متعدد سینئر اور اہل افسران کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ جبکہ من پسند افسران کو نوازا گیا۔ اس عمل سے پورے ملک میں کسٹمز انسپکٹرز میں شدید بے چینی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں تقریباً ستّر کے قریب سپرنٹنڈنٹ کی اسامیاں خالی ہیں۔ جنہیں تاحال پُر نہیں کیا جا سکا۔ جس کے باعث محکمے کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
اسی دوران لاہور میں ایک اور بدعنوانی کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ کسٹمز انویسٹی گیشن اینڈ پراسیکیوشن سیل کسٹم ہائوس لاہور کو دی گئی ایک تحریری شکایت کے مطابق، کنار بند روڈ لاہور پر واقع کسٹمز اسٹیٹ ویئر ہائوس میں سرکاری تحویل میں موجود غیر ملکی اسمگل شدہ ایرانی خشک دودھ کی بھاری مقدار کو جعلسازی اور ملی بھگت سے خورد برد کر لیا گیا۔
یہ اسکینڈل اس وقت بے نقاب ہوا جب کلکٹر کسٹمز انفورسمنٹ لاہور کی ہدایات پر 28 اور 29 مارچ 2025ء کی درمیانی شب کسٹمز اینٹی اسمگلنگ انفورسمنٹ لاہور نے شیخوپورہ میں قائم دو گوداموں پر چھاپہ مارا۔ جہاں سے بھاری مقدار میں ایرانی خشک دودھ برآمد ہوا۔ اسے بعد ازاں لاہور منتقل کر کے سرکاری ویئر ہائوس میں محفوظ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر فیصل لیاقت، انسپکٹر کسٹمز نے سپرنٹنڈنٹ اصغر پوریوال، ڈپٹی کسٹوڈین لیڈی انسپکٹر ردا حسن اور دیگر افسران کے ہمراہ 6917 بیگز کا معائنہ کیا اور اس کی رپورٹ جاری کی۔ تاہم بعد میں بنائے گئے ایک خصوصی انسپیکشن بورڈ، جس میں سپرنٹنڈنٹ فضل عباس، انسپکٹر کامران اور اپریزنگ افسر علی جنید شامل تھے، نے جب دوبارہ جانچ پڑتال کی تو کل تعداد 7294 بیگز نکلی۔ اس کے علاوہ مزید 1632 بیگز ایسے بھی پائے گئے، جن میں اصل خشک دودھ کی جگہ بے کار آٹا، لکڑی کا برادہ اور چاک پائوڈر بھرا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ جعلسازی جان بوجھ کر اور مکمل منصوبہ بندی کے تحت کی گئی۔ تاکہ قیمتی اشیا کو خوردبرد کر کے اس کی جگہ کم قیمت جعلی مال داخل کر دیا جائے۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ اس جرم کو چھپانے کیلئے اسٹیٹ ویئر ہائوس میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے بھی بند کر دیئے گئے۔ تاکہ کوئی شواہد باقی نہ رہیں۔ 1632 جعلی بیگز کی مارکیٹ ویلیو 4 کروڑ 64 لاکھ 75 ہزار 581 روپے تھی۔ جبکہ اس پر واجب الادا کسٹمز ڈیوٹی و دیگر محصولات کا تخمینہ تقریباً 2 کروڑ 38 لاکھ 63 ہزار روپے لگایا گیا۔ اس کے علاوہ دوران معائنہ مزید 377 بیگز بھی برآمد ہوئے جنہیں ابتدائی رپورٹ میں دانستہ طور پر چھپایا گیا تھا۔ ان بیگز کی مالیت 1 کروڑ 7 لاکھ 36 ہزار روپے، جبکہ واجب الادا ڈیوٹی 55 لاکھ 12 ہزار روپے تھی۔
یوں مجموعی طور پر اس کرپشن کے نتیجے میں قومی خزانے کو تقریباً 5 کروڑ 72 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ مقدمے میں ملوث افراد میں انسپکٹر فیصل لیاقت، سپرنٹنڈنٹ اصغر پوریوال، ڈپٹی کسٹوڈین ردا حسن، سپاہی محمد علی، محمد شعیب، وقاص احمد اور دیگر اہلکاروں کے ساتھ ساتھ شیخو پورہ سے تعلق رکھنے والے گودام مالکان ساجد منظور وغیرہ کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ ملزمان پر کسٹمز ایکٹ 1969 کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جن میں دھوکا دہی، جعلسازی، حکومتی املاک کو نقصان پہنچانا اور مجرمانہ سازش جیسے جرائم شامل ہیں۔
انسپکٹرز اور سینئر افسران کا کہنا ہے کہ اگر اس سنگین بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی عمل میں نہ لائی گئی اور ترقیوں کا عمل شفاف طریقے سے مکمل نہ کیا گیا تو محکمہ کسٹمز میں بداعتمادی اور بدعنوانی مزید فروغ پائے گی۔ اب نگاہیں ایف بی آر اور محکمہ کسٹمز کی اعلیٰ قیادت پر مرکوز ہیں کہ وہ اس سنگین مالی اسکینڈل اور اندرونی بدنظمی پر کب اور کس قدر موثر ایکشن لیتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos