جناب طارق محمود مرزا:ایک ہمہ جہت ادیب، دانشور اور معمارِ تہذیب

تحریر علامہ عبد الستار عاصم

آسٹریلیا میں مقیم ممتاز ادیب، دانشور اور کالم نگار طارق محمود مرزا کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اردو زبان و ادب کی خدمت کی بلکہ اپنی تحریروں، تقریروں، تنظیمی خدمات اور صحافتی وابستگیوں کے ذریعے دیارِ غیر میں اردو زبان کو زندہ رکھنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یکم جون 1961 کو راولپنڈی، پاکستان میں پیدا ہونے والے طارق مرزا نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد انہوں نے کراچی کا رخ کیا، جہاں انہوں نے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ یہ محض فنی تعلیم نہیں تھی بلکہ اس سفر کا ایک سنگ میل تھا جس نے اُن کے اندر جستجو، مشاہدے اور تخلیقی تجربات کا در وا کیا۔کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور امتیازی نمبروں سے کامیابی نے ان کی علمی بصیرت اور فکری وسعت کو مزید پختہ کیا۔ 1994 میں جب انہیں آسٹریلیا میں مستقل سکونت کی پیشکش ہوئی تو وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ سڈنی منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے ایک کامیاب کاروبار کا آغاز کیا لیکن صرف کاروبار ان کی زندگی کا مطمع نظر نہ تھا۔ ادب، صحافت، تحقیق اور تنظیمی سرگرمیوں میں بھی وہ اسی جوش و خروش سے مصروف عمل رہے۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو انہیں دیگر افراد سے ممتاز بناتا ہے کہ انہوں نے معاشی استحکام کے بعد اپنی زندگی کا بڑا حصہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا۔سڈنی میں مقیم ہو کر بھی انہوں نے پاکستان سے رشتہ منقطع نہیں کیا۔ وہ پاک لٹریری فاؤنڈیشن آف آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلز وِنگ کے سربراہ ہیں، جس کے تحت مختلف ادبی تقریبات، مشاعرے، کتابوں کی رونمائیاں اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ علامہ اقبال سٹڈی سرکل کے بانی اور مہتمم ہیں۔ اس ادارے کے تحت نہ صرف اقبال شناسی کے فروغ کے لیے مستقل بنیادوں پر ماہانہ اور سالانہ تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے بلکہ نوجوان نسل میں فکرِ اقبال کی ترویج کے لیے تعلیمی لیکچرز، مقابلے اور مطالعہ اقبالیات کی نشستیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔طارق مرزا کی تحریریں گہرے فکری شعور، نکتہ رسی، مشاہدے اور فنِ تحریر کے اعلیٰ معیار کی عکاس ہیں۔ ان کے کالمز روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ پاکستان میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ ان کالمز میں وہ صرف سیاسی و سماجی مسائل پر ہی نہیں لکھتے بلکہ ان کی تحریروں میں تہذیبی نوحہ، قومی شعور، اخلاقی اقدار، اسلامی فکر اور عالمی منظرنامے کا دقیق تجزیہ بھی ملتا ہے۔ اردو ڈائجسٹ، سمت، ادبِ عالیہ، سلسلہ، شگوفہ اور فنون جیسے موقر ادبی رسائل میں ان کی کہانیاں اور ادبی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریریں ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔اقبالیات پر ان کی دلچسپی محض ذاتی سطح تک محدود نہیں بلکہ ایک علمی مشن کا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کے افکار کو نہ صرف اپنی تحریروں میں بیان کیا بلکہ انہیں عصرِ حاضر کے سیاق و سباق میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اقبالیاتی مقالات میں علامہ کے فکری نظام، خودی، اسلامی نشاة ثانیہ، تصورِ عشق اور ملتِ اسلامیہ کے حوالے سے گہرے تجزیے موجود ہیں۔ اقبال کو محض شاعر یا فلسفی سمجھنے کی بجائے طارق مرزا نے انہیں ایک رہبر، مصلح اور دوراندیش مفکر کے طور پر پیش کیا ہے۔سفر و سیاحت سے طارق مرزا کو گہرا شغف ہے۔ ان کے سفرنامے روایتی انداز سے ہٹ کر تہذیبی، ثقافتی اور انسانی مطالعے سے مزین ہوتے ہیں۔ انہوں نے جن ممالک کا سفر کیا، ان کی تہذیب، ثقافت، طرزِ بود و باش، فنونِ لطیفہ، تاریخی ورثہ، اور عام انسانوں کی کہانیوں کو اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سفرناموں میں قاری کو ایک جمالیاتی لذت کے ساتھ ساتھ فکری آسودگی بھی نصیب ہوتی ہے۔ ان کے سفرنامے محض سیاحتی رودادیں نہیں بلکہ علم و آگہی، تاریخ و تمدن اور انسانی تجربات کا گلدستہ ہیں۔طارق مرزا کی اب تک چھ تصنیفات منظرِ عام پر آ چکی ہیں: خوشبو کا سفر، تلاشِ راہ، سفرِ عشق، دنیا رنگ رنگیلی، ملکوں ملکوں دیکھا چاند، اور حیات و افکارِ اقبال۔ ان میں ہر کتاب ایک منفرد ذائقہ اور اسلوب رکھتی ہے۔ "خوشبو کا سفر” میں جذباتی اور فکری سچائیوں کی جھلک ہے، "تلاشِ راہ” ایک فکری جستجو کا بیانیہ ہے، "سفرِ عشق” میں ایک روحانی اور فکری ارتقاء کی کہانی ہے۔ "دنیا رنگ رنگیلی” اور "ملکوں ملکوں دیکھا چاند” ان کے سفرنامے ہیں جو نہ صرف مقامات کی منظرکشی کرتے ہیں بلکہ دلوں کے رنگ بھی دکھاتے ہیں۔ "حیات و افکارِ اقبال” ایک علمی کارنامہ ہے جو اقبال کے فکری نظام کو عام قاری کے فہم میں لانے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ان کی ادبی، صحافتی اور تنظیمی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی اداروں اور تنظیموں نے اعزازات سے نوازا۔ اکیڈمی ادبیات پاکستان، پاک ٹی ہاؤس لاہور، اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا، دریچہ اوسلو ناروے، بیلی تنظیم ڈنمارک، اردو انٹرنیشنل آف آسٹریلیا، پاکستان ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا، اور سینئر کمیونٹی آرگنائزیشن کینیڈا جیسے اداروں نے ان کی خدمات کو سراہا۔ یہ اعزازات ان کی کاوشوں کا عالمی اعتراف ہیں۔طارق محمود مرزا ان لوگوں میں شامل ہیں جو لفظ کو مقدس جانتے ہیں، تحریر کو عبادت سمجھتے ہیں اور علم کو انسانیت کی خدمت کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ وہ صرف ایک ادیب یا صحافی نہیں، بلکہ ایک تہذیبی معمار، ایک فکری راہنما اور اردو زبان کے ایک سچے عاشق ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر ایک مشعل راہ ہے جو نئی نسل کے لیے عزم، علم اور خدمت کا درس دیتا ہے۔ ان کا قلم آج بھی سڈنی سے لے کر راولپنڈی تک، تہذیب، زبان اور فکر کے چراغ روشن کر رہا ہےطارق محمود مرزا محض ایک ادیب، صحافی یا کالم نگار نہیں، بلکہ وہ ایک ایسے با شعور اور حساس پاکستانی ہیں جنہوں نے دیارِ غیر میں رہتے ہوئے اپنی شناخت، اپنی تہذیب، اور اپنے وطن سے محبت کو کبھی پسِ پشت نہیں ڈالا۔ وہ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی محنت اور علم سے ذاتی کامیابیاں حاصل کیں بلکہ اپنے وطن پاکستان کا نام بھی روشن کیا۔سڈنی جیسے مغربی شہر میں رہ کر جہاں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے، طارق محمود مرزا نے اردو زبان اور پاکستانی ثقافت کو زندہ رکھا، اور اسے نئی نسل تک منتقل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ادبی سرگرمیاں، تنظیمی خدمات، علامہ اقبال اسٹڈی سرکل کی بنیاد اور پاک لٹریری فاؤنڈیشن کی قیادت اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ وطن سے دور ہو کر بھی وطن کے قریب تر ہیں۔ان کی تحریروں میں وطن کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ ان کے کالمز، سفرنامے اور مقالات صرف ادبی تخلیقات نہیں بلکہ وہ پاکستان سے محبت کا استعارہ ہیں۔ ان کے الفاظ میں دردمندی ہے، ان کی تحریر میں تہذیب کی جھلک ہے، اور ان کے افکار میں پاکستان کی فلاح، ترقی اور ساکھ کی گونج سنائی دیتی ہے۔دیارِ غیر میں رہتے ہوئے پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، لیکن طارق مرزا اس فرض کو نہایت خوبی، سلیقے اور دیانتداری سے نبھا رہے ہیں۔ وہ آسٹریلیا میں بسنے والے پاکستانیوں کو اپنی تہذیب سے جوڑے رکھنے کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹی میں پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کرنے کا سبب بنے ہیں۔ایسے افراد کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کے افکار و خدمات نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ طارق محمود مرزا نے ادب، صحافت، اور ثقافت کے میدان میں جو خدمات سرانجام دی ہیں، وہ نہ صرف قابلِ قدر ہیں بلکہ لائقِ تقلید بھی ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں صحت، ہمت اور مزید کامیابیوں سے نوازے تاکہ وہ اسی طرح پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرتے رہیں، اردو زبان کا پرچم بلند رکھتے رہیں، اور نسلِ نو کے ذہنوں میں فکری چراغ جلاتے رہیں۔