فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی کی مارکیٹوں میں کریک ڈائون سے کہرام

عمران خان:۔

کسٹمز انفورسمنٹ کراچی کی ٹیموں نے اسمگلنگ کے خلاف جاری مہم کے دوران شہر کے معروف تجارتی مراکز پر بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں، جن میں کروڑوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان ضبط کرلیا گیا۔ کارروائیاں بولٹن مارکیٹ، جوڑیا بازار اور یوسف پلازہ سمیت شہر کی 14 بڑی مارکیٹوں میں کی گئیں۔ مذکورہ علاقوں میں متعدد دکانوں اور گوداموں پر چھاپے مارے گئے اور درجنوں دکانوں کے تالے توڑ کر بھاری مقدار میں اسمگل شدہ غیر ملکی سامان ضبط کیا گیا۔

کسٹمز ذرائع کے مطابق کارروائی کے دوران کاسمیٹکس مصنوعات، صابن، شیمپو، پرفیوم، سگریٹ، ویپ، فلیورز، بیوٹی کریمز اور لوشن سمیت دیگر متعدد اشیا ضبط کی گئیں جنہیں 8 سے 10 مزدا ٹرکوں میں بھر کر اے ایس او ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ جبکہ بعض مارکیٹ ذرائع کے مطابق کارروائی کے وقت تک 15 مزدا ٹرک سامان ضبط کیا جا چکا تھا۔ کارروائی میں کسٹمز اے ایس او کی ٹیموں کے ہمراہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری بھی شامل تھی۔

ذرائع کے مطابق ان چھاپوں کی خبر رات دیر گئے اسمگلروں کے نیٹ ورک تک پہنچا دی گئی تھی، جس کے بعد متعلقہ دکان داروں اور گودام مالکان کو فوری طور پر اطلاع دی گئی۔ اس اطلاع کے بعد درجنوں ملازمین اور کارندے موقع پر پہنچے اور احتجاج شروع کر دیا۔ مظاہرین نے کسٹمز اہلکاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ کشیدہ صورت حال کے باعث کسٹمز ٹیموں کو کارروائی ادھوری چھوڑ کر، جو سامان ٹرکوں میں لوڈ کر چکی تھیں، اسے لے کر موقع سے نکلنا پڑا۔

یہ کارروائیاں بولٹن مارکیٹ، جوڑیا بازار، یوسف پلازہ، ماشا اللہ سینٹر، ماوری مارکیٹ (ون سے تین تک)، برہانی سینٹر سمیت دیگر متعدد مارکیٹوں میں انجام دی گئیں۔ گزشتہ روز (جمعرات) دوپہر کو کارروائی کی زد میں آنے والے دکانداروں اور تاجروں نے شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا جس کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں بدترین ٹریفک جام رہا۔ مظاہرے کے دوران ایمبولینسز سمیت دیگر گاڑیاں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی رہیں۔ جبکہ پولیس کی بھاری نفری مظاہرین کو منتشر کرنے میں مصروف رہی۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ کسٹمز کی موجودہ پالیسی غیر منصفانہ ہے کیونکہ اگر واقعی اسمگلنگ کی روک تھام مقصود ہے تو اس کا مؤثر حل شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر کارروائی ہے، نہ کہ ان مارکیٹوں میں چھاپے مارنا جہاں تاجر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے مال خریدتے ہیں۔ تاجروں کا مؤقف ہے کہ جب ایک تاجر کسی ہول سیلر سے سامان خریدتا ہے تو اس کی نیت کاروبار کرنا ہوتی ہے، نہ کہ غیر قانونی مال خریدنے کی۔ ایسے میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے دکانوں پر تالے توڑ کر سامان ضبط کرنا سراسر زیادتی ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ کسٹمز کی ان کارروائیوں سے وہ منظم اسمگلر گروپ متاثر نہیں ہوتے جو بلوچستان یا دیگر علاقوں سے کراچی میں مال پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ترسیل مکمل کر کے الگ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے سرکاری اہلکار بھی اپنا حصہ لے چکے ہوتے ہیں۔ بالآخر نقصان صرف کراچی کے ان تاجروں کو ہوتا ہے جو نادانستہ طور پر اسمگل شدہ سامان خرید لیتے ہیں اور ان کا سامان چھاپوں میں ضبط کر لیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی اسمگلنگ پالیسی کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ کارروائیوں کا مرکز مارکیٹیں نہ ہوں، بلکہ سرحدی چوکیاں، ہائی ویز اور داخلی راستے ہوں۔ تاکہ غیر قانونی سامان شہر میں داخل ہی نہ ہو۔ بصورت دیگر یہ طرزِ عمل کراچی کے کاروباری طبقے میں بے چینی، نقصان اور بداعتمادی کو جنم دیتا رہے گا۔