حصہ داروں کے علم میں لائے بغیر منافع جائز نہیں، مفتیان کرام، فائل فوٹو
 حصہ داروں کے علم میں لائے بغیر منافع جائز نہیں، مفتیان کرام، فائل فوٹو

’’دکھاوے کیلیے فینسی جانور کی قربانی قبول نہیں ہوتی‘‘

محمد اطہر فاروقی:

دکھاوے کیلیے فینسی یا مہنگا جانور خریدنا نہ صرف یہ کہ اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ اس کی قربانی بھی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ جبکہ خریدوفروخت میں دھوکا دہی، جھوٹ بولنا اور جانور کا عیب چھپانا شرعاً ناجائز ہے۔ البتہ جانور بیچنے والا اور خریدنے والا کسی ایک قیمت پر متفق ہوکر جانور خرید لیں تو اس میں جتنا بھی منافع ہو، شرعاً جائز ہے۔

اس حوالے سے ادارہ الحرمین کے مہتمم اور الحرمین جامعہ مسجد کے امام و خطیب مفتی طلحہ عتیق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شریعت میں منافع اور ناجائز منافع کے حوالے سے ایسی کوئی ترغیب نہیں ملتی جس میں یہ طے کیا جائے کہ کسی بھی ایک چیز یا جانور پر اتنا فیصد منافع جائز ہے اور اتنا فیصد منافع ناجائز ہے۔ اس کیلئے شریعت میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی چیز کو بیچنے والا اور خریدنے والا جب کسی ایک قیمت پر راضی ہو جائیں تو وہی قیمت جائز ہے اور وہی جائز منافع ہے۔

شریعت نے بعض مقامات پر زیادہ منافع خوری کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ البتہ اسے ناجائز نہیں کہا گیا۔ معاشرے میں محض جانور ہی نہیں بلکہ ہر اشیا پر قیمتوں میں من مانے اضافے کرنا، اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کر کے مارکیٹ اور عرف عام کے ریٹ کو خراب کرنا عام ہو گیا ہے۔ یہ عمل دھوکے میں شامل ہو سکتا ہے جو کہ درست نہیں۔ انہوں نے فینسی اور خوبصورت جانوروں کے حوالے سے بتایا کہ ’’حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ پاک خوبصورت ہیں اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ ’’تم اپنے جانوروں کو کھلا پلا کر موٹا کرو، کیونکہ یہ جانور پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی‘‘۔

ان احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ پاک کی راہ میں جو جانور قربان کیا جا رہا ہے۔ اس میں خوبصورتی اور صحت کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جانور میں کوئی عیب ہو تو وہ اللہ پاک کے یہاں قربانی کی مد میں قابل قبول نہیں ہوتا۔ لیکن آج کل معاشرے میں دیکھا جا رہا ہے کہ بڑے اور فینسی جانور خریدنے والے افراد دکھاوا اور ریاکاری کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ جو شخص تھوڑی بھی ریاکاری کرتا ہے تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہوتی ہے۔ لیکن کوئی شخص دکھاوے کیلئے نہیں کر رہا۔ اللہ نے اسے مال سے نوازا ہے اور وہ ایک کروڑ کا جانور خرید کر قربانی کر رہا ہے تو ایسے میں اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تاہم فینسی جانور اور مہنگے جانوروں میں نیت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔

حدیث مبارک میں آتا ہے کہ ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘۔ مفتی طلحہ عتیق کے مطابق اجتماعی قربانی کے فوائد کے ساتھ مضر اثرات بھی ہیں۔ فائدے یہ ہیں کہ ایک شخص قربانی بڑے جانور کی کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اس کے پاس اتنی رقم نہیں اور نہ وہ اتنی سکت رکھتا ہے تو وہ ایک حصہ بڑے جانور میں اپنی قربانی کا ڈال دیتا ہے۔ ایسی صورت میں اجتماعی قربانی کے کام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اجتماعی قربانی میں سب سے بڑا شرعی مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانور میں شامل ہونے والے 7 افراد کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں کہ ان کی کمائی حلال ہے۔

اس کے علاوہ عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ اجتماعی قربانی کرنے والے افراد بیوپاری کو جانور کی مد میں بیعانہ دے کر آجاتے ہیں اور پھر اس جانور کے حصوں کی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔ جبکہ اس پر اپنا منافع بھی کماتے ہیں حصے داروں کے علم میں لائے بغیر، تو یہ جائز نہیں۔ اجتماعی قربانی میں ایک بات یہ بھی دیکھی جا رہی ہے کہ جب کسی فرد سے فی حصہ 30 ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔ تاہم جانور لینے اور خرچہ و کرایہ نکالنے کے بعد فی حصہ 20 ہزار کا بنتا ہے تو اجتماعی قربانی کے منتظمین وہ رقم واپس نہیں کرتے۔ بلکہ اجتماعی قربانی سے قبل ہی ایسے فرد سے دستخط بھی لے لئے جاتے ہیں کہ بچنے والی رقم ثواب فنڈ یا ادرے میں عطیہ ہو جائے گی تو یہ بات بھی درست نہیں۔ اس کا اصل طریقہ یہ ہے کہ وہ رقم واپس کر دی جائے اور اس کے بعد اگر وہ فرد خود اپنی خوشی سے وہ رقم دینا چاہے تو یہ درست ہوگا۔

معروف مذہبی اسکالر مفتی مولانا فضل سبحان نے بتایا کہ اگر دکھاوے اور ریا کاری کی نیت سے فینسی یا مہنگا ترین جانور خریدا جائے تو ظاہر ہے اسراف کے زمرے میں آئے گا۔ لیکن اگر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے خوبصورت جانور مہنگا خریدا جائے اور ریا کاری اور دوسروں پر فخر جتلانا مقصود نہ ہو تو اچھی بات ہے۔ قرآن کریم میں سورہ آل عمران پارہ نمبر 4 کی پہلی آیت کا ترجمہ ہے ’’ہرگز تم نیکی کا اعلیٰ درجہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک راہ خدا میں اپنی پسندیدہ ترین چیز خرچ نہ کرلو‘‘۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے اپنا عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا تو بعض نے گنجان باغ اللہ کی رضا کیلئے وقف کردیا۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ خرید و فروخت میں دھوکہ نہ دے اور جھوٹ نہ بولے، اسی طرح عیب نہ چھپائے اور خریدار اپنی خوشی سے اس قیمت پر راضی ہو تو وہ منافع جائز اور حلال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اجتماعی قربانی کرنے والے یا کسی ادارے کی طرف سے جانور خرید کر ان کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں ادارہ کی حیثیت ’’وکیل‘‘ اور ’’امین ‘‘ کی ہے۔ اس صورت میں ضابطہ یہ ہے کہ قربانی کے حصہ اور انتظامات پر جو اخراجات آئیں، وہ اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کو بتائے جائیں۔ قربانی کا جانور خریدنے اور اس پر آنے والے تمام اخراجات کے بعد جو رقم بچ جائے، وہ حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے۔ اس رقم کو ان کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھنا نا جائز ہے۔ ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارہ کو عطیہ کر دیں تو اس صورت میں یہ رقم لینا درست ہے۔