امت رپورٹ :
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ کے سامنے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔ اس کیس کا ممکنہ فیصلہ پاکستان کی موجودہ سیاست کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ اب تک ہونے والی سماعت کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی اپنا کیس ہار سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کی بائیس نشستوں سمیت ستتر خصوصی نشستوں میں سے بیشتر دوبارہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جھولی میں چلی جائیں گی۔
یوں ایک بار پھر حکمراں اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور حکومت کو بغیر کسی بیساکھی کے اپنی مرضی کی مزید آئینی ترامیم کرنے کا موقع مل جائے گا۔ شنید ہے کہ ایسی صورت میں فوری ستائیسویں ترمیم لانے کی کوشش کی جائے گی۔ تاکہ جو شقیں چھبیسویں ترامیم میں منظور نہیں کی جاسکی تھیں، وہ کرالی جائیں۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو موجودہ حکومت جو چھبیسویں ترامیم کے بعد خاصی مضبوط ہوئی، اسے مزید استحکام مل جائے گا اور اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت گرانے کی کمزور کوششیں دم توڑ جائیں گی۔
چھبیسویں آئینی ترامیم کے ابتدائی مسودے میں چھپن شقیں تجویز کی گئی تھیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمن کی مزاحمت کے سبب ان میں سے بائیس شقیں منظور کی جاسکی تھیں۔ منظور کردہ بنیادی شقیں جو اب آئین کا حصہ بن چکی ہیں، یہ تھیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ بارہ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے تھے۔ یہ دکھ وہ آج تک نہیں بھول سکے ہیں۔
اسی طرح منظور کردہ دیگر شقوں میں قرار دیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال، جبکہ عمر کی حد پینسٹھ سال ہوگی۔ وزیرِ اعظم کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام صدر کو ارسال کریں گے۔ وزیرِ اعظم یا کابینہ کی تجویز پر کوئی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ کمیٹی میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ ہوں گے۔ سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔
سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ یہ ترمیم دراصل ہائیکورٹ کے ان ججز کو دائرے میں لانے کے لیے کی گئی، جن کے بارے میں حکومت سمجھتی تھی کہ ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ دیگر ترامیم کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کے حوالے کیا گیا۔ یہ ترمیم بھی منظور کی گئی کہ چیف جسٹس کی زیرِ صدارت کمیشن میں آئینی بینچز کا سینئر ترین جج بھی شامل ہوگا۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔
کسی بھی آئینی بینچ میں شامل سینئر ترین جج آئینی بینچ کا سربراہ ہو گا۔ از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ آئین کی تشریح سے متعلق کیس آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ یہ اسی شق کا نتیجہ ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالنے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کا معاملہ آج آئینی بنچ میں زیر سماعت ہے۔ چھبیسویں ترمیم نہ ہوتی تو یہ کیس سپریم کورٹ کا روٹین کا بنچ سن رہا ہوتا۔ جہاں پی ٹی آئی کے ہمدرد تصور کیے جانے والے ہم خیال ججز کی اکثریت ہے۔
چھبیسویں ترامیم میں زیادہ تر شقیں عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق تھیں۔ حکومت ایک الگ آئینی عدالت کا قیام چاہتی تھی۔ تاہم یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور آئینی بنچز کے قیام پر حکومت کو اکتفا کرنا پڑا۔ اب اگر حکمراں اتحاد کو دوبارہ خصوصی نشستیں مل جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوجاتی ہے تو پھر ذرائع کے بقول اس بار ستائیسویں ترامیم کے ذریعے ایک باقاعدہ آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ اسی طرح فوجی تنصیبات پر حملہ آور سویلین عناصر کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی ترمیم بھی لائی جاسکتی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کا عمل درست قرار دے چکی ہے۔ تاہم ترمیم کی صورت میں اسے آئینی چھتری مل جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ستائیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے آرٹیکل تریسٹھ اے میں چند اہم ترامیم بھی لائی جاسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی پالیسی کے خلاف دیا جانے والا ووٹ شمار ہوگا، جبکہ ووٹ دینے والے کو ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ وفاقی آئینی عدالت میں جائے گا۔ یہ معاملہ چھبیسویں ترامیم کی مجوزہ شقوں میں شامل تھا۔ لیکن تب حکومت اس سے مجبوراًَ دستبردار ہو گئی تھی۔ حکومت ان ترامیم کو لے کر اس لئے حساس ہے کہ اس کے خیال میں آرٹیکل تریسٹھ کی غلط تشریح کرکے ماضی میں پی ٹی آئی کو فائدہ اور اسے نقصان پہنچایا گیا۔
واضح رہے کہ سترہ مئی دو ہزار بائیس کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا، جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے گی۔ اس فیصلے سے بنچ کے دو ججز نے اختلاف کیا تھا، جبکہ فیصلے کو لکھنے والے جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن نے چیف جسٹس بندیال کا ساتھ دیا تھا۔ جو دیگر شقیں چھبیسویں ترامیم سے حکومت کو نکالنی پڑی تھیں، ان میں چند یہ بھی تھیں کہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کے خلاف پارلیمان میں بات نہیں ہو سکتی۔
آئینی عدالت میں جمع ہونے والی رقم وفاقی حکومت کو جائے گی۔ دوہری شہریت رکھنے والا ہائی کورٹ کا جج نہیں ہو سکتا اور یہ کہ قومی سلامتی سے متعلقہ کسی شخص پر ہائی کورٹ حکم جاری نہیں کر سکے گی۔ ذرائع کے مطابق قوی امکان ہے کہ مجوزہ ستائیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے حکومت باقی ماندہ تمام شقوں کو بھی منظور کراکے اپنی محرومی کا ازالہ کرلے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس بارہ جولائی کو سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے پانچ کے مقابلے میں آٹھ ججز کے تناسب سے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ اکثریتی فیصلے میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور عرفان سعادت خان شامل تھے۔
جبکہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے مختصر فیصلے میں ان اپیلوں، درخواستوں اور متفرق درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، جس کے تحت سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کی مخصوص نشستیں حکمراں جماعتوں میں تقسیم کردی گئی تھیں۔ ان دونوں جج صاحبان نے اپنے اختلافی فیصلے میں آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ دوسری جانب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشترکہ جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا علیحدہ اختلافی نوٹ قلمبند کیا تھا۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جس کی سماعت اس وقت آئینی بنچ میں جاری ہے۔
اب تک ہونے والی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس سے واضح ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلے کے بارے میں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا جج آئینی اسکوپ سے باہر جاکر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ عوامی امنگوں اور جمہوریت کے لیے ہی سہی، مگر کیا ججز آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلے میں تین دن کو بڑھاکر پندرہ دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے جیسا تھا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos