حضرت سید امیر شاہ گیلانی القادری کے حالات زندگی

تحریر کیپٹن ریٹائرڈ پیر سید طالب حسین شاہ گیلانی سجادہ نشین دربار عالیہ غوثیہ امیریہ بانڈی شریف مظفرآباد

حضرت سید امیر شاہ گیلانی القادری تقریباً 1771بمقام کڑکا شریف مانسہرہ ہزارہ میں حضرت سید محمد شاہ گیلانی القادری کے گھر پیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلہ نصب چھ واسطوں سے مشہور صوفی بزرگ کامل غوث زماں قطب دوراں حضرت سخی شاہ سلطانی گیلانی القادری موضوع پوجدرہ شریف نزد بدرال گلی جوک پیر مرشد تنولی خان تھے سے جا ملتا ہے ۔جبکہ 27واسطوں سے باب ولایت اسد اللہ الغائب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے ۔آپ نے روحانی کسب و فیض اپنے والد گرامی حضرت محمد شاہ جیلانی القادری سے حاصل کیا ۔آپ کے آباؤ اجداد میں بڑے کامل صوفی بزرگ ولی اللہ گزرے ہیں ۔آپ کے والد گرامی حضرت سید محمد شاہ جوکہ ایک مرتبہ ریاست پھلڑہ شریف کے مشہور خان عطاء محمد خان کی والدہ کی وفات پر سواری کا جانور نہ ملنے کی وجہ سے دیوار پر سوار ہو کر دریائے سرن سے گزر کر جنازہ میں شریک ہوئے ۔اور اسی پر واپس کڑکا شریف تشریف لائے ۔آپ سمالا گلی موضوع کڑکا شریف میں رزق حلال تلاش کرنے کے لئے کھیت میں فصل کاشت کررہے تھے کہ حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نے کشمیر کی جانب اللہ کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم دیا۔چنانچہ۔آپ نے دنیاوی سامان چھوڑ کر براستہ گڑھی حبیب اللہ مظفرآباد دریائے نیلم کے پل کے پاس آ پہنچے موقع پر موجود مہاراجہ گلاب سنگھ کے سپاہیوں نے روکا۔اور مروجہ ریاستی قوانین کے مطابق ریاست کشمیر میں داخل ہونے کے لئے اجازت نامہ چاہا ۔لیکن اجازت نہ ملی اور انہیں پل سے نہ گزرنے دیا گیا ۔چنانچہ آپ نے دومیل کے مقام پر اپنی گھوڑی کو دریائے نیلم میں دریا عبور کرنے کے لئے ڈال دیا ۔اللہ تعالیٰ کے حکم اورولی کامل کی کرامت سے دریائے نیلم کی رواں دواں موجیں ایک لمحہ کے لئے رک گئیں ۔اور آپ باحفاظت دریائے نیلم کو عبور کر کے ریاست کشمیر میں داخل ہوئے ۔آپ سے بے شمار کرامات صادر ہوئیں ۔جن پتھروں پر آپ نے نماز پڑھی۔اور دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ پتھر کسی دوسری رہائشی جگہ پر ہوتے میں مصلیٰ چھوڑ کر ان پر نماز ادا کرتا۔ان کی خواہش کے مطابق وہی پتھر بیس میل تک ان کی سواری کا پیچھا کرکے وہاں پہنچے جوآج بھی بمقام دربار عالیہ بانڈی شریف کے لنگر خانے کے صحن میں اور بمقام ڈھوک درہ میں موجود ہیں ۔جنگلی شیر اوردرندہ صفت جانورزیر فرمان تھے ۔جنات اور غیبی مخلوقات پر دسترس حاصل تھی ۔جس سے متاثر ہو کر غیر مذہب حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔اور آپ کے دست حق پربعیت ہوکر توبہ تائب ہوئے۔ضلع مظفرآباد ،مانسہرہ علاقہ پہاڑ سلطان بوئی کے عوام کو آپ سے بے حد عقیدت و محبت تھی۔آپ سے روحانی فیض و برکات حاصل کئے ۔آپ شروع کے کچھ ایام میں علاقہ دبن لنگر پورہ میں گزارے لیکن زندگی کے بقیہ ایام کے لئے آپ نے بانڈی فتح جنگ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔جو آپ کی نسبت سے کشمیر و پاکستان میں دربار امیریہ بانڈی شریف کے نام سے مشہور ہے ۔قانون قدرت ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے ۔اور ہر پیدا ہونے والے نے مرنا ہے ۔آپ نے 140سال کی عمر تک کے آخری ایام بانڈی فتح جنگ اور اس کے ملحقہ ڈھوکوں اور سیاہ جنگلوں میں گزارے ۔اور 1910میں عید الاضحی کے دن آپ اسی مقام پر دارلفنا سے دار البقاء میں منتقل ہو گئے ۔آپ کا جسد خاکی دربار امیریہ بانڈی شریف لایا گیا ۔اور تدفین ہوئی اسی نسبت سے آپ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال عیدالاضحی کے دوسرے دن 12ذی الحج کو شروع ہوکر 14 ذی الحجہ کو اختتام پذیر ہوتا ہے ۔آپ کے دربار کی تعمیر نو اور توسیع کے دوران آپ کی قبر مبارک 26رمضان المبارک 1978میں 68سال کے بعد کھودی گئی۔آپ کا جسد خاکی صحیح سلامت پایا گیا ۔اور آپ کے صاحب زادے حضرت سید میر احمد شاہ کی موجودگی میں آپ کو کفنایا گیا ۔نماز جنازہ پڑھ کر آپ کو دفنایا گیا ۔دربار عالیہ غوثیہ امیریہ بانڈی شریف مظفرآباد سے 16کلو میٹر ہوتریڑی روڈ پر واقع ہے ۔آپ کا دربار مرجع خلائق فیض رساں سے جہاں اطراف سے زائرین سال بھر جوق در جوق حاضر ہو کر روحانی فیض و برکات حاصل کرتے ہیں ۔اور بیماروں کو شفا حاصل ہوتی ہے ۔روحانی فیض و برکات جاری وساری ہے۔آپ کے اکلوتے صاحب ذادے حضرت سید امیر احمد شاہ گیلانی القادری کا وصال اپریل 2000 میں ہوا اور وہ بھی آپ کے مزار اقدس کے اندر ہی دفن ہیں۔اس سال 2025 میں بھی عرس کی تقریبات دربار عالیہ غوثیہ امیریہ بانڈی شریف مظفرآباد میں 9,10،11جون منعقد ہورہا ہے ۔اور اختتامی دعا بروز بدھ 11جون دن 1بجے ہوگی ۔جس میں پاکستان وآذاد کشمیر بھر سے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شریک ہورہی ہے۔