نواز طاہر:
غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی باون سمبڑیال (سیالکوٹ نو) کے ضمنی الیکشن میں اپنی کامیابی برقرار رکھی ہے۔ یہ سطور لکھے جانے تک کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج باقی ہیں۔ تاہم ان پر اگر تمام ووٹ بھی مخالف امیدواروں کے حق میں شمار کیے جائیں تو بھی لیگی امیدوار کے حاصل شدہ ووٹوں سے بہت کم ہوں گے اور نتائج پر کسی طور اثر انداز نہیں ہوسکتے۔
روایتی طور پر اس ضمنی الیکشن کے دوران مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں سخت کلامی اور بعض جگہ جھڑپیں ہوتی رہیں۔ تاہم مجموعی طور پر پولنگ کا عمل صرف ایک پولنگ اسٹیشن پر محض دس منٹ کے تعطل کے سوا سخت حفاظتی انتظامات میں بلا وقفہ جاری رہا۔
اس دوران سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے اور حکومتی امیدوار حنا ارشد وڑائچ کے حق میں جانبداری کا الزام لگایا گیا۔ نواز لیگ کی حنا وڑائچ نے پارٹی کے انتخابی نشان شیر، پی ٹی آئی کی طرف سے فاخر نشاط گھمن نے پارٹی کے انتخابی نشان بلے کے بجائے ڈھول، تحریکِ لبیک پاکستان کے امیدوار محمد شفاقت نے کرین اور پیپلز پارٹی کے امیدوار راحیل کامران چیمہ نے پارٹی کے انتخابی نشان تیر پر الیکشن لڑا۔ اس کے علاوہ آٹھ دیگر امیداوار بھی میدان میں تھے۔ لیکن انتخابی مہم کے دوران بھی انہیں پذیرائی نہ ملی تھی۔ البتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی پوزیشن عام انتخابات کی نسبت کہیں زیادہ بہتر رہی۔ اس کی بنیادی وجہ منظم انتخابی مہم بتائی گئی ہے۔ انتخابی سرووں میں پیپلز پارٹی کی تیسری پوزیشن کی نشاندہی کی گئی تھی۔
پولنگ اسٹیشنوں پر جہاں رائے دہندگان میں مقابلہ جاری تھا۔ وہیں سوشل میڈیا پر بھی انتخابی دنگل جاری رہا۔ اس دنگل میں حکومتی امیدوار کی ناکامی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کامیابی سے ہمکنار قرار پایا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو نظر انداز کیا گیا۔ حالانکہ انتخابی مہم سے لے کر پولنگ کے دوران تک ریاستی مشینری کے بعض اقدامات پر شکایات میں پیپلز پارٹی آگے اگے رہی تھی اور اس نے پولنگ کے دوران حکومتی جماعت کے کارکنوں پر غنڈہ گردی کا بھی الزام لگایا تھا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے دوپہر ہی کو اس کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر راجہ پرویز اشرف کے دھاندلی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ پیپلز پارٹی رہنما ان الزامات کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد کے ساتھ الیکشن کمیشن میں شکایت درج کریں۔ الیکشن کمیشن تمام شکایات کا فوری ازالہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ کسی بھی طرح کی شکایت کیخلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی خبروں کو بھی من گھڑت قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر پولنگ نہیں روکی گئی۔
یاد رہے کہ اس حلقے سے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے صرف ایک ہزار آٹھ سو نواسی ووٹ لے کر ساتویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدوار ارشد جاوید وڑائچ اٹھاون ہزار تین سو پچاسی ووٹ لیکر فاتح قرار پائے تھے۔ پی ٹی آئی کے فاخر نشاط گھمن اننچاس ہزار آٹھ سو پچاس ووٹوں کے ساتھ رنر اپ، جبکہ تحریکِ لبیک پاکستان کے محمد شفاقت گیارہ ہزار چھ سو چوہتر ووٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن پر رہے تھے۔
یہاں یہ امر قابل ہے کہ شدید گرمی کے باعث ووٹروں کی طرف سے اس ضمنی الیکشن میں زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر قابلِ ذکر رش دیکھنے میں نہیں آیا۔ جبکہ جن چند پولنگ اسٹیشنوں پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حکومتی امیدوار کے مقابلے میں مخالف امیدواروں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا، وہاں بھی کم رش والے پولنگ اسٹیشن تھے۔ دراصل ان پولینگ اسٹیشنز پر پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں نے ہلہ بولا تھا۔ جنہیں پولیس نے روک دیا تھا۔
اسی پر پی ٹی آئی کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر سرکاری امیدوار کی حمایت کا الزام لگایا گیا۔ یہ جھڑپیں لوپو والی، مترانوالی، بمبانوالی اور بیگو والی کے پولنگ اسٹیشنوں میں ہوئیں۔ تاہم مجموعی طور پر کسی بڑے جھگڑے کے بغیر پولنگ کا عمل انجام کو پہنچا۔ یاد رہے کہ میڈیا سروے رپورٹوں میں پہلے ہی نشاندہی کی جارہی تھی کہ شدید گرمی کے باعث ووٹروز کی عدم دلچسپی کا سامنا ہو سکتا ہے اور تمام امیدواروں بالخصوص پی ٹی آئی کے امیدوار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جسے گزشتہ الیکشن میں پونے نو ہزار سے شکست ہوئی تھی۔ جن انتخابی اسٹیشنوں کے ابتدائی نتائج عملے کے اعلان کے بغیر سامنے آئے، وہاں لیگی امیدوار حنا ارشد وڑائچ کو پینتالیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار کم و بیش نصف ووٹوںکے ساتھ رنر اپ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار تیسری پوزیشن پر تھے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos