محمد قاسم :
افغان مہاجرین کو 30 جون تک واپس جانے کی مہلت ملنے کے بعد بڑے افغان تاجروں اور سرمایہ داروں نے پاکستان میں ٹھہرنے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ کاروبار وغیرہ سمیٹ کر واپس جانے کے بجائے انہوں نے بچوں کیلئے رشتے ڈھونڈنا شروع کر دیے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں شادی ہونے کی صورت میں وہ افغانستان جانے سے بچ سکتے ہیں۔
عید الاضحی کے بعد پشاور سمیت صوبہ بھر میں افغان باشندوں کی بڑے پیمانے پر شادی بیاہ کی تقریبات شروع ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین سے شادی کی صورت میں افغان باشندوں کو پاکستان اوریجن کارڈ مل سکتا ہے۔ یہ کارڈ ملنے کے بعد وہ پاکستان میں ہی ٹھہر سکتے ہیں۔ جس پر بڑے افغان تاجروں اور سرمایہ کاروں نے اپنے بچوں کیلئے پاکستان میں رشتے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ہیں۔ تاکہ تمام کاروبار فروخت کرنے اور جائیدادیں بیچنے سے بچ جائیں۔ کیونکہ کاروبار کی منتقلی اور جائیدادوں کی فروخت میں افغانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ذرائع کے بقول بہت سے افغان باشندے کاروبار میں نقصان کرنے کے بعد افغانستان جا چکے ہیں۔ جبکہ متعدد نے اپنی قیمتی جائیدادیں اونے پونے داموں بھی فروخت کی ہیں۔ تاہم ایسے بڑے افغان سرمایہ دار اور تاجر جن کو افغانستان میں دوبارہ سے کاروبار چلانے میں مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے، نے پاکستان میں ہی ٹھہرنے کیلئے پہلے حکومت سے مہلت مانگی اور جب حکومت پاکستان نے ان کو مزید وقت دیدیا تو انہوں نے پاکستان میں ہی رہنے کیلئے کوششوں کا آغاز کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے پاکستان میں دوست احباب سے درخواست کی ہے کہ ان کے بچوں کا رشتہ کرانے میں ان کی مدد کی جائے۔ تاکہ اگر وہ افغانستان چلے بھی جائیں تو ان کا کاروبار اور جائیداد سنبھالنے والے پاکستان میں موجود ہوں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کچھ اطلاعات ایسی بھی موصول ہوئی ہیں کہ افغان خواتین جو پشاور میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور بہت ساری ایسی افغان خواتین بھی ہیں جو نجی اداروں میں ملازمت کر رہی ہیں اور اچھی خاصی تنخواہ بھی لے رہی ہیں، انہوں نے بھی پاکستان میں ہی رہ کر گھر بسانے کے بارے میں غور شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق افغانستان میں خواتین پر پابندیاں ہیں۔ ایسے میں ان خواتین کو وہ ماحول نہیں ملے گا کہ جس میں وہ ملازمت کر کے گھر کی کفالت کر سکیں۔ ذرائع کے مطابق جیسے جیسے افغان باشندوں کو حکومت پاکستان کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے، افغان تاجروں اور سرمایہ داروں نے اپنے دوستوں سے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔ تاکہ اپنے بچوں کیلئے مناسب رشتہ ڈھونڈ سکیں۔
واضح رہے کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں افغان باشندوں کی بڑی جائیدادیں اور کاروبار ہیں۔ جو انہوں نے گزشتہ کئی عشروں تک یہاں پر رہ کر بنائی ہیں اور اس کاروبار کو ایک دم سے چھوڑ دینا ان کیلئے نقصان کا باعث بنے گا۔ اسی لئے پہلے مرحلے پر انہوں نے حکومت پاکستان سے مزید وقت مانگا اور جب حکومت نے افغان باشندوں کو واپس جانے کی ڈیڈ لائن بڑھا دی تو اب انہوں نے مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔
پشاورسے متصل ضلع نوشہرہ کی تحصیل اکبر پورہ سے تعلق رکھنے والے زمان خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ باغات کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ افغان تاجر بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ تاہم گزشتہ ایک ہفتے سے ان کے ساتھ دو سے تین افغان تاجروں نے رابطے کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان بچوں کیلئے کوئی مناسب رشتہ ہو تو بات آگے بڑھائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے افغانوں کو واپس جانے کی تاریخ دی ہے۔ اگر پاکستان میں رشتہ ہو جائے گا تو کم از کم کاروبار تو بچ جائے اور جو زمین و جائیداد ان کے بڑوں نے خریدی ہے، وہ بھی کم داموں فروخت سے بچ جائے گی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos