کرپشن کے متعدد نیٹ ورک بڑے شہروں میں چلائے جا رہے ہیں، فائل فوٹو

سائبر کرائمز انویسٹی گیشن کے افسران اغوا برائے تاوان میں ملوث نکلے

عمران خان:

نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے افسران کی کرپشن کا بڑا اسکینڈل سامنے آگیا۔ کروڑوں روپے کی رشوت اور جرائم کی پردہ پوشی کے متعدد نیٹ ورک بڑے شہروں میں چلائے جا رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے افسران بھی معاونت کر رہے ہیں۔ تحقیقات کا دائرہ اعلیٰ افسران تک پھیلا دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں غیر قانونی ڈبہ کال سینٹرز کی سرپرستی کرنے اور ان کے خلاف خفیہ کارروائیوں کے بعد ان سے بھاری رشوت لے کر انہیں کام کرنے کی اجازت دینے کی متعدد اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔

’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لیے ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے سائبر کرائم ونگ میں انقلابی اقدامات اور اسے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) میں تبدیل کرنے کے باوجود، بیورو کریسی میں بدعنوانی کے گھنائونے معاملات سامنے آ گئے ہیں۔ اس نئی ایجنسی میں بھی رشوت ستانی کا ناسور اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس نے حکومت کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ تازہ ترین واقعے میں، این سی سی آئی اے ملتان زون کے تین افسران سمیت متعدد افراد کے خلاف ایک کروڑ روپے رشوت لینے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ جو سرکاری اداروں میں پھیلی بدعنوانی کی ایک واضح مثال ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے راجہ رفعت مختار کے حکم پر درج کیے گئے اس مقدمے نے دونوں تحقیقاتی اداروں ایف آئی اے اور این سی سی آئی اے کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایف آئی اے نے فوری کارروائی کرتے ہوئے این سی سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل حسن شاہ اور ایک پرائیویٹ شخص عبدالحنان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان دونوں ملزمان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا ہے۔ تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔

ایف آئی اے کرائم سرکل ملتان میں درج کیے جانے والے مقدمہ نمبر 1897/2025 کے مطابق، این سی سی آئی اے ملتان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسد فخرالدین نے 31 مئی (شام) کو اوکاڑہ کے رہائشی محمد شفیق کو اغوا کیا۔ اس کے بعد شفیق کی رہائی کے لیے ان کے بھائی محمد رفیق سے ایک کروڑ روپے رشوت کا مطالبہ کیا گیا۔ جب رفیق نے اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے اگلے روز این سی سی آئی اے کے دفتر کا رخ کیا، تو ان کے دوست حافظ علی شان کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

درخواست گزار محمد رفیق کے مطابق، ان کے بھائی محمد شفیق کو 30 اور 31 مئی کی درمیانی شب تقریباً 1 بج کر 30 منٹ پر کے ایف سی موڑ اوکاڑہ سے اسد فخرالدین نے حراست میں لیا اور اپنے ہمراہ ملتان لے گئے۔ جب وہ این سی سی آئی اے ملتان پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ایسی کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اس پر محمد رفیق نے ایف آئی اے کمپوزٹ سرکل میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل حسن شاہ سے رابطہ کیا۔ حسن شاہ نے پہلے تو کچھ وقت مانگا اور پھر بتایا کہ شفیق کی رہائی کے عوض ایک کروڑ روپے دینے ہوں گے۔ رفیق نے فوری طور پر 70 لاکھ روپے اے ڈی لیگل کی رہائش گاہ پر جا کر ادا کیے اور باقی رقم کے انتظام کے لیے کچھ وقت مانگا۔

یہاں کہانی نے مزید سنگین موڑ لیا۔ جب رفیق نے مزید 30 لاکھ روپے کی ادائیگی کے لیے رابطہ کیا، تو اے ڈی لیگل حسن شاہ نے رشوت کی ڈیمانڈ بڑھا کر مزید ایک کروڑ روپے مانگ لیے۔ ہولناک بات یہ ہے کہ حسن شاہ نے رفیق کو ان کے بھائی پر ہونے والے تشدد کی آوازیں بھی سنوائیں۔ جس پر رفیق نے فوری طور پر اپنی دو گاڑیاں فروخت کیں اور رقم کا انتظام کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق، یہ 70 لاکھ روپے کی ابتدائی رقم گاڑی کی فروخت کے بعد کار شو روم کے ذریعے وصول کی گئی۔

مقدمے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل حسن شاہ نے نجی شخص عبدالحنان کے ساتھ مل کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسد فخرالدین کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کروائی۔ یہ سب واضح کرتا ہے کہ کس طرح سرکاری افسران بدعنوانی میں نجی افراد کو بھی شامل کر کے اس کے دائرہ کار کو وسیع کر رہے ہیں۔

مقدمے میں نامزد دیگر افراد میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر این سی سی آئی اے اسد فخر الدین، اے ایس آئی ظفر، اور نجی شخص عبدالحنان شامل ہیں۔ ملزمان کے مطابق، اسد فخرالدین کے پاس رشوت کی رقم ہے اور وہ اس وقت مفرور ہے۔ اسد فخرالدین پر اس سے قبل بھی اینٹی کرپشن میں مختلف بدعنوانیوں کی انکوائریاں چل رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔

ایف آئی اے نے یہ مقدمہ تھانہ ایف آئی اے سرکل ملتان میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 161 (سرکاری ملازم کا رشوت لینا)، 162 (رشوت لینا تاکہ سرکاری ملازم کو متاثر کیا جا سکے)، 163 (سرکاری ملازم کے اثر و رسوخ کے بدلے رشوت لینا)، 109 (جرم میں معاونت)، اور انسداد بد عنوانی ایکٹ کی دفعہ 5 (2) 47 PCA (دفتری بدعنوانی) کے تحت درج کیا ہے۔

یہ واقعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ حکومتی اداروں میں بدعنوانی ابھی بھی جڑیں پکڑے ہوئے ہے اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس قسم کے واقعات حکومت کی نیک نیتی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور تمام ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ کیا حکومت بدعنوانی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر بیورو کریسی کا یہ نظام اسی طرح سرکاری محنت پر پانی پھیرتا رہے گا۔