امت رپورٹ :
غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر طویل خاموشی اختیار کرنے والی ملالہ یوسفزئی آخرکار بول پڑی ہے۔ لیکن اُس کی اِس لب کشائی کو سوشل میڈیا صارفین نے منافقت سے تعبیر کرتے ہوئے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
غزہ کے متاثرین کے لیے امداد لے جانے والی کشتی میڈلین پر سوار عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کی کارکن گریٹا تھنبرگ اور اس کے ساتھیوں کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتاری اور جبری ملک بدری کے بعد ملالہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کی ’’میڈلین، بچوں کا فارمولا دودھ اور امداد لے کر جا رہی تھی۔ اسرائیلی حکومت بچوں کو دن کو بھوکا مار رہی ہے جبکہ رات کو ان کے گھروں پر بمباری کر رہی ہے۔ میڈلین پر کارکنوں کو روکنا اور انہیں حراست میں لینا اسرائیل کی طرف سے بزدلانہ کارروائی ہے۔ خوراک اور طبی سامان کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچنے سے روکنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل، غزہ کو فوری طور پر امداد کی اجازت دے، مستقل جنگ بندی کا عہد کرے، فلسطینیوں کو عزت اور امن سے رہنے دے۔‘‘

ملالہ کی اس پوسٹ پر ایک صارف نے لکھا ’’صرف ایکس پر باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ گریٹا تھنبرگ کی طرح عملی میدان میں کیوں نہیں اتر تی ؟‘‘ ایک اور صارف نے کہا ’’آخر کار نوبل انعام یافتہ ملالہ بھی بولنے پر مجبور ہوگئی۔ وہ نوبل انعام کے نام پر دھبہ ہے۔‘‘ ایک اور نے طنز کیا ’’یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم زندہ ہو۔‘‘
آخر کیا وجہ ہے کہ پہلے ملالہ کی خاموشی پر جو سوشل میڈیا صارفین انتہائی برہم تھے، اب اس کے بولنے پر چراغ پا ہیں ؟ اور یہ کہ ملالہ کے مقابلے میں گریٹا پر ستائش کے پھول کیوں برسائے جارہے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لئے تھوڑا پس منظر میں جانا پڑے گا۔
ملالہ یوسف زئی اور گریٹا تھنبرگ میں قدر مشترک ہے کہ دونوں نے کم عمری میں عالمی شہرت پائی۔ ایک نے دنیا بھر میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دلانے کی مہم شروع کی اور دوسری نے اپنی جدوجہد کا آغاز آب و ہوا میں تبدیلی کے بارے میں آواز اٹھانے سے کیا۔
ملالہ کو امن کا نوبل پرائز ملا تو گریٹا کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’’ضمیر کا سفیر‘‘ نامی ایوارڈ دیا۔جبکہ دو ہزار انیس میں جب گریٹا محض سولہ برس کی تھی تو ٹائم میگزین نے اسے دنیا کی با اثر ترین شخصیات میں شامل کیا۔ ملالہ اس وقت ستائیس برس کی ہے اور گریٹا کی عمر بائیس برس ہے۔ اب دونوں میں فرق یہ ہے کہ گریٹا اس کم عمری میں بھی عالمی رہنماؤں کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے اور وہ بلا خوف ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔
چند برس پہلے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں شرکت کے موقع پر صدر ٹرمپ کے ساتھ گریٹا کے آمنے سامنے کی ویڈیو خاصی وائرل ہوئی تھی۔ اس کے برعکس دنیا نے دیکھا کہ ملالہ یوسفزئی ایک بااثر شخصیت ہونے کے باوجود زیادہ تر مصلحت کی چادر اوڑھنے پر اکتفا کرتی ہے اور دانستہ ایسے معاملات پر حق بات بولنے سے گریز کرتی ہے، جس سے مغرب کے ناراض ہونے کا خدشہ ہو۔ دوسری جانب گریٹا تھنبرگ باتوں سے زیادہ عملی قدم اٹھاتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی انسانی حقوق کا معاملہ ہو، وہ فوری وہاں پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں محصور فلسطینیوں کے لئے جان کی پرواہ کئے بغیر امدادی کشتی لے کر غزہ روانہ ہونا، اس کی تازہ مثال ہے ۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ غزہ کے محصورین کے لیے امدادی کشتی لے کر گئی۔ گزشتہ ماہ بھی گریٹا نے امدادی کشتی لے کر غزہ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم مالٹا کے قریب بین الاقوامی پانیوں کی حدود میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے دو ڈرونز کے ساتھ کشتی پر حملہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہ سفر ادھورا رہ گیا تھا ۔
جنوری دوہزار تین میں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک اداکار کے گھر جنم لینے والی گریٹا تھنبرگ نے کسی سہارے کے بغیر اپنی اولعزمی سے عالمی شہرت حاصل کی۔ اس کے برعکس ملالہ یوسف زئی کو عالمی شہ سرخیوں میں جگہ دلانا ایک باقاعدہ پلاٹ کا حصہ تھا۔ جس کے خاکے میں اس کے والد نے رنگ بھرا۔ آج اس کا پورا خاندان برطانیہ میں عیش کررہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے حملے کے بعد بیرون ملک روانگی اور پھر مغرب کی ایما پر امن کا نوبل پرائز ملنے تک کی کہانی دوہرانے کی ضرورت نہیں۔
قصہ مختصر، ملالہ یوسف زئی پاکستان میں ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ خاص طور پر ہزاروں بچوں سمیت فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی پر امن کی نام نہاد علمبردار ملالہ کی مجرمانہ خاموشی نے اسے مزید متنازعہ بنایا ہے۔ جب تنقید بڑھ جاتی ہے تو وہ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر فلسطینیوں کی حمایت میں ایک پھسپھسی سی پوسٹ کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن مغر ب اور بالخصوص اسرائیل کی ناراضگی کے خوف سے وہ تاحال فلسطینیوں کے خلاف بدترین مظالم پر موثر آواز اٹھانے یا گریٹا کی طرح عملی قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔ اگر وہ چاہے تو غزہ میں قتل عام کے خلاف محض ایک علامتی بھوک ہڑتال کرکے دنیا کی توجہ اس المیے کی طرف دلانے میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔
گزشتہ برس ملالہ یوسف زئی سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ایک میوزیکل تھیٹر میں کام کرتی ہوئی نظر آئی تھی۔ جس پر سوشل میڈیا پر ان لوگوں نے بھی ملالہ کو آڑے ہاتھوں لیا جو کبھی اس کے حامی تصور کئے جاتے تھے۔ ان سوشل میڈیا صارفین نے ملالہ کو لتاڑتے ہو ئے یاد دلایا تھا کہ ہیلری کلنٹن نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کے خلاف مضامین لکھتی ہے، بلکہ وہ معصوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کا دفاع بھی کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملالہ نے ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام کرنے کی تصاویر کو نہایت فخر کے ساتھ پوسٹ کیا تھا۔
واضح رہے کہ گریٹا تھنبرگ چند روز پہلے دوسری بار امدادی کشتی میں محصور فلسطینیوں کے لئے امداد لے کر غزہ کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ اس کے ہمراہ کشتی میں دیگر گیارہ افراد بھی سوار تھے۔ جنہیں اسرائیلی فوج نے غزہ سے دو سو کلو میٹر دور اغوا کرلیا اور گرفتار کرکے زبردستی ساتھ لے گئے۔ بعد ازاں گریٹا اور ان کے تین ساتھیوں کو زبردستی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ دیگر آٹھ کو حراست میں لیا گیا۔
اس کارروائی پر گریٹا تھنبرگ نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے ا نہیں فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے پر بین الاقوامی سمندروں سے اغوا کر لیا تھا۔ اسرائیلی فوج ان سے ایک ایسی دستاویز پر دستخط کرانا چاہتی تھی جس پر لکھا تھا کہ غیر قانونی طور پر اسرائیل میں داخل ہونے پر انہیں ڈی پورٹ کیا جائے۔ تاہم گریٹا نے انکار کر دیا۔ جس پر انہیں حراست میں لے کر زبردستی ڈی پورٹ کیا گیا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos