نمائندہ امت :
ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد جہاں دنیا بھر سے مذمتی بیانات جاری ہیں۔ وہیں افغان وزارت خارجہ نے ایران پر اسرائیلی حملے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان ایرانی حکومت اور قوم کا ساتھ دیں گے۔ گو کہ ایران نے طالبان سے اب تک اس حوالے سے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق افغان طالبان ایران کی زمینی جنگ میں تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن فضائی مدد طالبان کے پاس نہ ہونے کے برابر ہے۔
البتہ شام کی لڑائی میں ایران نے بامیان کے ہزاروں نوجوانوں کو زینبیون بریگیڈ میں بھرتی کیا تھا اور اس بریگیڈ کے ہزاروں نوجوان ایران کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں اور بہت سے نوجوان ایران جانا چاہتے ہیں۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ کس طرح زمینی افواج چودہ سو کلو میٹر دور لڑائی لڑیں گی۔ تاہم مستقبل میں زینبیون بریگیڈ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن زینبیون اور فاطمیون بریگیڈ کو تربیت دینے والے اکثر ایرانی فوجی اعلیٰ اہلکار اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے ہیں اور نئے فوجی کمانڈرز کو رابطے بحال کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
پھر ایران کو بھی اپنی سرزمین پر اتنے بڑے پیمانے پر اعلیٰ فوجی عہدیداروں کی فضائی حملے میں نشانہ بنانے کی توقعات نہیں تھیں۔ اور جس طرح کا آپریشن اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے خلاف ترتیب دیا تھا۔ وہی آپریشن ایران میں ترتیب دیا گیا ہے اور تقریباً پندرہ منٹ کے اندر ایران کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغان طالبان کے وزارت دفاع کے ایک عہدیدار حافظ متین کے مطابق افغان حکومت ایران کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ تاہم جس طرح دیگر اسلامی ممالک کے پاس ہتھیار اور ٹیکنالوجی موجود ہے اور جس سے وہ ایران کی مدد کر سکتے ہیں،
اس طرح کی مدد افغان طالبان نہیں کر سکتے۔ افغان حکومت کے پاس جو امریکہ اسلحہ افغانستان میں رہ گیا ہے، وہ زمینی لڑائی کیلئے قابل عمل ہے۔ اگر اسرائیل ایرانی بارڈر کے قریب ہوتا تو زمینی جنگ میں مدد فراہم ہو سکتی تھی۔ افغان حکومتی ذرائع کے مطابق افغان حکومت ایران کے ساتھ رابطے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن جن فوجی عہدیداروں کے ساتھ افغان حکومت کے رابطے تھے، ان میں سے اکثریت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لہذا نئے عہدیداروں کے ساتھ روابط استوار کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
آئندہ چوبیس گھنٹوں میں اسرائیل کی جانب سے مزید حملوں کا خدشہ ہے۔ اب ایران افغانستان سے کس طرح مدد چاہے گا یہ تو رابطہ ہونے پر پتہ چلے گا۔ تاہم اگر ایرانی عوام کو جنگ کے دوران پناہ کی ضرورت پڑی تو افغان طالبان ایرانی عوام کو پناہ دیں گے۔ کیونکہ ایران نے افغانستان کے لاکھوں لوگوں کو امریکی جنگ کے دوران پناہ دی تھی۔ لہذا افغان قوم اپنے ایرانی بھائیوں کو پناہ دینے کیلئے تیار ہے۔ تاہم زمینی جنگ کی توقع نہیں ہے اور پوری جنگ میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی جہازوں کی لڑائی ہے، جس میں افغان طالبان کے پاس نہ تو فضائی ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی میزائل ٹیکنالوجی۔ تاہم جب بھی ایران کی جانب سے مدد کی درخواست کی گئی تو اس پر غور کیا جائے گا۔
دوسری جانب ایران میں موجود افغان باشندوں نے افغانستان واپسی کی تیاری شروع کر دی ہے اور اگر جنگ طویل ہو جاتی ہے تو افغان باشندے واپس اپنے وطن آسکتے ہیں۔ اس حوالے سے افغان وزارت مہاجرین و قبائلی امور کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے افغان حکومت تیار ہے۔ تقریباً چار سے سات لاکھ کے قریب افغان مہاجرین ایران میں آباد ہیں۔ ان کی واپسی کیلئے انتظامات بھی کیے جا سکتے ہیں اور اس حوالے سے افغان سفارتخانے میں ایک سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک ایران سے افغان باشندوں کی واپسی کے کوئی آثا ر نظر نہیں آرہے ہیں۔ لیکن اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان لڑائی طوالت اختیار کرتی ہے تو ایران میں موجود افغان مہاجرین واپس آ سکتے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے بعض ذرائع یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا اسرائیلی حملوں کے بعد ایران میں حکومت تبدیل کر سکتا ہے۔ جس کے بعد ایران اور افغانستان کے درمیان مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ موجودہ ایرانی حکومت کے طالبان کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔ تاہم اگر ایران میں حکومت تبدیل ہو جاتی ہے تو طالبان کے ساتھ ان کے رویے میں تبدیلی آسکتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos