گدھا گاڑیوں پر بروقت اسپتال پہنچا کر سیکڑوں زخمیوں کی جان بچائی جاچکی، فائل فوٹو
گدھا گاڑیوں پر بروقت اسپتال پہنچا کر سیکڑوں زخمیوں کی جان بچائی جاچکی، فائل فوٹو

غزہ میں گدھوں کے اعزاز میں خصوصی تقریب

ندیم بلوچ :

غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن جارحیت کے باوجود فلسطینی خوشی منانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑتے۔ اسرائیل پر حالیہ ایرانی حملوں کی وجہ سے غزہ میں خوشی کی لہر دیکھی جارہی ہے۔ جبکہ فلسطینی عوام نے اس جنگ میں سب سے زیادہ ساتھ دینے والے گدھوں کیلئے خصوصی تقریب کا اہتمام بھی کیا۔ گزشتہ دنوں غزہ کے جنوبی علاقے میں پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افراد نے گدھوں کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا جس کا مقصد جنگ کے دوران گدھوں کی بے پناہ خدمات کا اعتراف تھا۔

تقریب میں درجنوں گدھوں کو سجا کر ملبے کے درمیان بچھائے گئے ریڈ کارپٹ (سرخ قالین) سے گزارا گیا۔ تقریب میں بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ تقریب کے منتظم اسحاق کرامت کا کہنا تھا کہ ’’دراصل یہ تقریب ایک طرح عرب حکمرانوں کے خلاف احتجاج کے طور پر منعقد کی گئی ہے۔ ہم نے عرب حکمرانوں سے زیادہ مدد فراہم کرنے والوں گدھوں کو سجا کر ریڈ کارپٹ سے گزارا اور ان کا پیٹ بھر نے کیلئے جو کی بوریاں اور چارے کا اہتمام کیا، جو بمشکل میسر ہے۔

اس جنگ میں ہماری جتنی مدد گدھوں نے کی، اتنی اب تک کوئی عرب ملک نہیں کرسکا ہے۔ ایمبولینس سروسز کی تباہی کے بعد گدھا گاڑیاں ہی یہ خدمت انجام دے رہی ہیں۔ ان کے ذریعے بروقت اسپتال پہنچا کر سیکڑوں زخمیوں کی جان بچائی جا چکی ہے۔‘‘ تقریب میں شریک امینہ روزی کا کہنا تھا ’’میں نے اپنے گدھے کا نام ٹائیگر رکھا ہے، جس نے جنگ کے آغاز سے اب تک ہماری بہت مدد کی۔ جنگ سے پہلے میں دودھ اور دہی فروخت کرتی تھی۔ اب گدھا گاڑی چلا کر اپنے بچوں کیلئے روٹی کا بندوبست کررہی ہوں۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔

جنگ کے دوران ایندھن کی قلت اور وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کی وجہ سے گدھے نقل و حمل کا واحد ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔‘‘ مروہ یاسین نامی خاتون نے بتایا ’’میں نے ڈونکی کارٹ (گدھا گاڑی) خریدنے کیلئے 20 شیکل ادا کئے۔ مجھے جنگ کے آغاز میں گدھے گاڑی پر سوار ہونے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔‘‘ تقریب میں شریک احمد ممتاز کا کہنا تھا ’’میں نے ایک گدھا ادھار میں خریدا تھا، لیکن جنگ میں چھرے لگنے سے مرگیا۔ دوسرا گدھا مجھے ایک شہید خاندان کے گھر سے ملا جس کو گاڑی میں جوت کر میں ڈیلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرتا ہوں۔‘‘

شمالی غزہ سے جنوب میں خان یونس تک بے گھر ہونے والے 23 سالہ یوسف محمد کا کہنا تھا ’’گدھا، میرے خاندان کے لیے ’’لائف لائن‘‘ بن گیا ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو کار کا کرایہ بہت مہنگا تھا، چناں چہ میرے پاس گدھا گاڑی چلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جب ہمیں وہاں سے نکالنے پر مجبور کیا گیا تو اس گدھے نے بہت ساتھ دیا۔ جنگ میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی لاشوں کو لے جانے کے لیے بھی گدھا گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگ کے دوران گدھے، زخمی لوگوں کو بچانے اور خوراک اور ادویات پہنچانے کا واحد ذریعہ بن گئے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غزہ میں گدھے کو سونے سے زیادہ قیمتی سمجھا جارہا ہے۔ اسرائیل نے تقریباً 90 فیصد گاڑیاں تباہ کر دی ہیں اور پٹی کا ایندھن تقریباً مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ اس طرح گدھوں کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔‘‘

سالم ابو ریالہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ گدھا گاڑی پر غزہ شہر سے ہجرت کرگئے تھے۔ اب وہ اسے بازار میں سبزیاں پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ اگست تک غزہ میں کام کرنے والے 43 فیصد جانور جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل تھے، مر چکے ہیں۔