پاکستان کی عسکری قیادت سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات

ڈاکٹر ظفر اقبال کراچی
بعض حلقوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان براہِ راست تناؤ کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ کی ملاقات میں ایران سے متعلقہ امکانات پر گفتگو یا مشورہ ایجنڈے کا حصہ ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں چند باتوں کو واضح کرنا ضروری ہے:
1. مشورے کی حیثیت: ہمارے حجم، تعلقات، اور باہمی اعتماد کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ ہماری رائے حاصل کرنا اور ہمارا رائے دینا، تعلقات کی اس نوعیت میں ایک پریکٹس کے طور پر نہیں جچتا، البتہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یقیناً اپنی حکمتِ عملی کے لیے ہماری ممکنہ رد عمل کے بارے میں جائزہ لینے کے لئے بین السطور بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے یہ موقع استعمال کرنا چاہتے ہوں۔
2. البتہ ٹرمپ صاحب کی تاریخ تو تجریدی گفتگو کی نہیں غیر مبہم بات کی ہے۔ یہ اور بات کہ چند روز بعد اس سے ہٹ کر کوئی بات کہہ دیں۔۔ خیر! ان معاملات میں ممکنہ نقشہ سمجھنا گفتگو کا اہم مقصد رہا ہوگا۔
3. تاریخی تعلقات کا تناظر: ایک سابق حلیف ہونے کے ناطے پاکستان شاید اب صرف چین کا "فرنٹ مین” بن کر رہ جانا نہیں چاہتا، حالانکہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ماضی میں "ٹشو پیپر” کی طرح استعمال کرنے کی روایت رہی ہے۔ تاہم، امریکہ کی یہ خواہش بھی ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر کھو نہ دیا جائے، بلکہ وہ ایک مطیع، طفیلی، اور محدود مددگار ملک کی حیثیت سے برقرار رہے۔ ساتھ ہی، وہ پاکستان پر عدم اعتماد کا طعنہ بھی دیتا رہے۔ اہداف کے لئے جو ممکن ہو وہ بھی حاصل کرنے کوشش کرتا رہے۔4. ایران کے حوالے سے ٹرمپ صاحب کی خواہش ہوگی کہ معلوم کیا جائے کہ پیش آمدہ معاملات میں پاکستان کی کیا پوزیشن ہوگی اور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا
5. پاک بھارت تعلقات: پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد اس معاملے پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔ یہ بات اٹل ہے کہ اگر صورتحال بھارت کے حق میں ہوتی تو امریکہ کبھی بھی جنگ بندی کی بات نہ کرتا۔ پاکستان کا ہر باشعور فرد، یہاں تک کہ ذہنی معذوری کے شکار افراد بھی، یہ سمجھ چکے ہیں کہ امریکہ کبھی بھی پاکستان کا حقیقی دوست نہیں بن سکتا۔ 1970ء کے بعد سے خطے میں امریکی کردار نے بارہا اس بات کی گواہی دی ہے۔
ہاں، یہ الگ بات ہے کہ سفارتی سطح پر اسے دہرایا نہیں جاتا، لیکن داخلی طور پر یہ سوچ متفق علیہ بن چکی ہے۔ بہت سے پاکستانیوں کے دل میں امریکہ سے قربت کی خواہش موجود ہے، لیکن ماضی کے ذلت آمیز تعلقات کے بعد اب پاکستان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ دوستی یا اعتماد کے رشتے کی تلاش کرے۔ بلکہ، ہمیں بتدریج امریکی انحصار سے آزاد ہونے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ پاکستانی عوام اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو اپنے حقیقی دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں واضح شعور پیدا کرنا ہوگا۔
آج یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ دنیا زیادہ دیر تک یک قطبی نہیں رہ سکتی۔ امریکہ کی اخلاقی ساکھ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ اصولوں، انسانیت دوستی، اور علاقائی امن کا دعویٰ کرنے والا یہ ملک غزہ، خلیج، ایران، عراق، شام اور مصر میں اپنی خونریز پالیسیوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا ہے۔ ویتنام، کوریا اور افغانستان میں اس کے فوجی تجربات بھی عزت افزائی کے قابل نہیں رہے۔ امریکی عوام بھی اپنے ٹیکس ڈالرز سے دنیا بھر میں انسانوں کے قتل ہوتے دیکھ کر بیزار ہو رہے ہیں، جبکہ نوجوان نسل میں صیہونیت اور غنڈہ گردی کی سرپرستی کے خلاف ردِ عمل بڑھ رہا ہے۔
لہٰذا، اگر پاکستان کو امریکی اثرات سے نجات مل رہی ہے تو ہمیں اس موقع کو غنیمت جان کر مضبوطی سے تھام لینا چاہیے۔

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

از: ڈاکٹر ظفر اقبال، کراچی