اسپیکر نے معاملے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی بنا دی ، فائل فوٹو
 اسپیکر نے معاملے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی بنا دی ، فائل فوٹو

’’گھڑی چور‘‘ کے نعرے پی ٹی آئی کا مقدر بن گئے

نواز طاہر :

پنجاب اسمبلی میں ایک رکن نے دوسرے رکن پر گھڑی چوری کا الزام لگا دیا، جس پر جہاں ایوان میں اسپیکر کے قابو سے باہر ہنگامہ آرائی، شور و غل اور نعرہ بازی نے اڑھائی گھنٹے تک ایوان کو مچھلی بازار بنائے رکھا۔ یہ پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اراکین اسمبلی کا کہنا ہے جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوس ناک اور ایوان کے تقدس پر سوالیہ نشان ہے۔ اس مبینہ چوری کے معاملہ پر اسپیکر نے کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران مبینہ طور پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن بلال یامین کی گھڑی سولہ جون کو بجٹ اجلاس کے موقع پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے شوروغل ، نعرہ بازی اور ایک دوسرے کو دھکیلنے کے عمل کے دوران چوری ہوئی اور اس کا الزام پی ٹی آئی کے رکن اعجاز شفیع پر لگایا گیا۔ بلال یامین ستی کا تعلق مری سے ہے اور وہ پہلی بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ پیشہ صحافت سے بھی منسلک رہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی رکن اعجاز شفیع کا تعلق جنوبی پنجاب کے سیاسی خاندان سے ہے اور وہ وکالت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اعجاز شفیع پہلی بار مشرف دور میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر رہے۔ تاہم سنہ دو ہزار تیرہ میں سیاسی قلابازی لگا کر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور اس اگلے الیکشن میں ایک بار پھر سیاسی وفاداری بدل کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں اس سے پہلے چوری کا کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ البتہ سیاسی اعتبار سے ریکارڈ میں تبدیلی کا واقعہ منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دور میں جبکہ سیکریٹری حبیب اللہ گورایہ ( موجودہ سیکرٹری عامر حبیب کے والد) تھے پیش آچکا ہے اور یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر بحث رہا۔ اسٹاف کی بھرتی میں مبینہ بے قاعدگی کا معاملہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں سامنے آیا اور یہ معاملہ عدالتوں میں ہے۔ ایوان کے اندر پولیس اور اراکین میں تصادم و توڑ پھوڑ کا واقعہ پی ٹی آئی کے دورِ اقتدار میں پیش آیا تھا جس میں اپوزیشن اراکین کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن اس میں بھی چوری جیسے الزام سامنے نہیں آئے تھے۔

گھڑی کی چوری کا معاملہ سولہ جون کے سیشن کے بعد سامنے آیا تھا، بلال یامین کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ جس وقت اپوزیشن اراکین شوروغل کررہے تھے اور وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب بڑھ رہے تھے تو دیگر ساتھی اراکین کے ساتھ وہ بھی اپوزیشن اراکین کے ان کی نشستوں کے طرف واپس جانے کے لئے کہہ رہے تھے جو دوران اعجاز شفیع نے ان کے ہاتھ سے اتار لی۔ جبکہ اعجاز شفیع نے اسے ایک لغو الزام قرار دیا۔ دو روز تک یہ معاملہ یونہی رہا، اسپیکر یا سیکریٹری اسمبلی کی طرف سے باضابطہ طور پر اس ضمن میں کسی قسم کی کارروائی یا گھڑی کی چوری کے واقعے کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔ لیکن انیس جون ( جمعرات ) کو بجٹ پر بحث کے موقع پر اجلاس شروع ہونے سے پہلے ایسی اطلاعات گردش کرنا شروع ہوگئی تھیں کہ اس معاملے پر اسمبلی کے اندر مناسب انداز میں بات ہوگی۔ تاہم جیسے ہی اجلاس شروع ہوا اور اپوزیشن اراکین نعرہ بازی کرتے ہوئے ایوان میں داخل ہورہے تھے۔

بلال یامین نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اپنی گھڑی کی چوری کا معاملہ اٹھایا۔ اس دوران صوبائی وزرا سمیت حکومتی اراکین نے اپنی گھڑیاں اتار کر ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ جواب میں اپوزیشن اراکین نے بھی ویسی ہی نعرہ بازی کی جس دوران اسپیکر اراکین کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن دونوں اطراف سے کسی نے بھی ان کی تلقین و احکامات کی پرواہ نہیں کی۔ کم و بیش بیس منٹ یہی صورتحال برقرار رہنے پر اسپیکر نے پانچ منٹ تک کارروائی روک دی اور حکومتی و اپوزیشن نمائندگان کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔

تین بج کر سات منٹ پر پانچ منٹ کیلئے روکی جانے والی یہ کارروائی اسپیکر چیمبر میں فریقین میں مذاکرات کے بعد دوبار چار بج کرچالیس منٹ پر شروع ہوئی تو حکومتی اراکین ’’’پنکی، پنکی‘‘‘ کے نعرے اور اپوزیشن اراکین ’’چور، چور‘‘ کے نعروں کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے جس سے ایوان ایک بار پھر مچھلی منڈی بن گیا۔ بلال یامین نے شدید شور و غل میں اپنا الزام دہرایا اور کہا کہ رولیکس کمپنی کی اس گھڑی کی مالیت سے زیادہ قدر اس بات کی ہے کہ یہ ان کے باپ کی نشانی ہے۔ اس سے انہیں پیار ہے اور وہ باپ کی یاد دلاتی ہے۔

اس گھڑی کے ساتھ ساتھ ایوان میں توشہ خانے کی بانی پی ٹی آئی کی طرف سے سعودی حکمران کے تحفے میں دی جانے والی گھڑی کی فروخت اور چوری کے نعرے بھی دہرائے گئے۔ اسپیکر نے اعلان کیا کہ اس معاملے پر انہوں نے کمیٹی قائم کردی ہے اور اب یہ معاملہ وہی کمیٹی دیکھے گی۔ اس سارے عمل میں حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین حصہ نہیں بنے اور خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔